7 دسمبر2017 کوانٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر 105روپے 55 پیسے تھی، اگلے روز8 دسمبر کو جب مارکیٹ کھلی تواچانک یہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 109روپے 50 پیسے ہوگئی۔
لاہور: (تجزریہ: شاہد حسن صدیقی) 7 دسمبر2017 کوانٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر 105روپے 55 پیسے تھی،اگلے روز8 دسمبر کو جب مارکیٹ کھلی تواچانک یہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 109روپے 50 پیسے ہوگئی، یعنی روپے کی قدرمیں 3 روپے 95 پیسے کی کمی ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد یہ قیمت 107 روپے پر سیٹل ہو کر بند ہوگئی یعنی جو 3 روپے 95 پیسے کی کمی ہوئی تھی وہ کم ہو کرایک روپے 45 پیسے رہ گئی،اب یہ نرخ 107 روپے فی ڈالرپربند ہواہے۔ یہ بہت حیران کن ہے کہ سٹیٹ بینک نے اسے معمول کی کارروائی قراردیا جو بڑی پراسراربات ہے کیونکہ ایک دن پہلے ہمارے سٹیٹ بینک کے پاس جوزرمبادلہ کے ذخائرتھے اس میں دو ارب پچاس کروڑ ڈالرکااضافہ ہواتھاکیونکہ حکومت نے بیرون ملک جوبانڈزبیچے تھے ان کے پیسے آئے تھے ،اگلے دن توسپلائی بڑھ گئی تھی پھرروپیہ کیوں گرا،میرے خیال میں سٹیٹ بینک نے اسے چھپانے کی کوشش کی ہے ، سٹیٹ بینک حکام اس پرخوش ہیں ۔ انہوں نے بیان دیا کہ اس سے جاری حسابات کاجوخسارہ ہے اس کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی اورمعیشت کوبھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے اس قسم کا عندیہ بھی دیا ہے کہ آگے چل کرکچھ عرصے میں رسد اورطلب کی وجہ سے روپے کی قدرمیں مزید کمی کاامکان ہے۔
سوچنے کی چیزیہ ہے کہ 5 جولائی 2017 کوبھی اسی طریقے سے روپے کی قدرگرائی گئی اورتقریباً 3 روپے 25 پیسے کم ہوئے تھے ا ورسٹیٹ بینک نے اس وقت کہاتھاکہ 108روپے 25 پیسے حقیقت پسندانہ ریٹ ہے ،اس کو اسحاق ڈار نے ویٹو کر دیا تھااور کہا تھا کہ سٹے بازی ہوئی ہے، میں تو کہتا ہوں کہ آج بھی سٹہ بازی ہوئی ہے، سٹیٹ بینک 107روپے پررضامند ہے کیونکہ اسحاق ڈار کا اثرو رسوخ اب نہیں ہے، سٹیٹ بینک روپے کی قدرآہستہ آہستہ گرنے دے گا، کیونکہ خبریہ ہے کہ عالمی ادارے نے کہا ہے کہ ڈالر مضبوط ہو رہا ہے اورمغرب میں شرح سود بھی بڑھے گی، ظاہری بات ہے کہ روپے کی قدرمیں کمی کا خدشہ رہے گا۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن ہمیں اس چیزکونظراندازنہیں کرناچاہئے کہ روپے کی قدرمیں کمی سے ہماری معیشت پرتباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں ،کیونکہ اگرڈالرپرایک روپیہ کم ہوتاہے تو80 ارب روپے کے ہمارے قرضے ملکی کرنسی میں بڑھ جاتے ہیں۔
ہماری 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی درآمدات مہنگی ہوجائیں گی ان پرحکومت کو ڈیوٹی زیادہ ضرور ملے گی لیکن قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگایہ بھی ایک نقصان ہوگا اورجوہم بیرونی قرضے ادا کررہے ہیں ان کیلئے بھی زیادہ رقوم مختص کرناپڑیں گی یہ سارے خدشات موجود ہیں ۔بڑی بات یہ ہے کہ اگرآئندہ مالی سال میں ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تووہ اس وقت روپے کی قدرمیں زبردست کمی کامطالبہ کرینگے اوردوسری شرائط رکھیں گے جن کے ہماری معیشت پرتباہ کن اثرات مرتب ہونگے ،توہمارے پاس وقت ہے اس سے پہلے اپنی معیشت کوبہتربنالیں اورروپے کومضبوط کریں ورنہ آئندہ مالی سال میں آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے بڑ ی خطرناک صورتحال سامنے آسکتی ہے۔