لاہور: (دنیا میگزین) کیا یہ کسی باؤلر کے لئے ممکن ہے کہ وہ اپنے پورے کیریئر کے دوران ایک بھی وائیڈ بال نہ کرائے؟ یہ سب عظیم باؤلرز تھے، پاکستان کے عمران خان بھی ان میں شامل ہیں۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ ناممکن تو نہیں لیکن آسان بھی نہیں۔ اس کے باوجود کچھ باؤلرز ایسے تھے جنہوں نے کبھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔ یہ ان کا اعزاز ہے کہ انہوں نے اپنی باؤلنگ کو کنٹرول میں رکھا انہوں نے امپائر کو اُن کی کسی گیند کو وائیڈ بال قرار دینے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ اس پر ان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
ہم ذیل میں ان عظیم باؤلرز کے بارے میں اپنے قارئین کو بتا رہے ہیں۔
فریڈ ٹرومین
ٹرومین وہ انگلش باؤلر ہیں جنہوں نے قریباً دو دہائیوں تک انگلینڈ کی نمائندگی کی۔ ان کی انٹرنیشنل کرکٹ 1948 میں شروع ہوئی۔ انہیں کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین باؤلرز میں شمار کیا جاتا ہے 50کی دہائی میں فریڈ ٹرومین اور برائن سیئٹھم کے ساتھ مل کر بلے بازوں پر ہیبت طاری کی۔
ٹرومین نے 603 فرسٹ کلاس میچز کھیلے اور 2304 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے 67 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 307وکٹیں اپنے نام کیں۔ ان کی بہترین باؤلنگ 31 رنز کے عوض 8وکٹیں ہیں۔ 12 موقعوں پر انہوں نے ایک سیزن میں 100 وکٹیں حاصل کیں۔ اُن کو اپنی باؤلنگ پر اس قدر کنٹرول تھا کہ انہوں نے کبھی وائیڈ بال نہیں کی۔
عمران خان
عمران خان جب پاکستانی ٹیم میں آئے تو اس وقت ٹیم میں انفرادی کارکردگی پر بہت توجہ دی جاتی تھی لیکن ٹیم ورک اور جیتنے کی لگن کم ہی نظر آتی تھی۔ 1982 میں جب انہیں کپتان بنایا گیا تو ان کا پہلا غیر ملکی دورہ انگلینڈ کا تھا۔ جہاں پاکستان نے پہلی بار انگلینڈ کو لارڈز کے تاریخی میدان میں شکست سے دوچار کیا۔ یہ وہی میچ تھا جس میں محسن خان نے ڈبل سنچری کی۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بدولت عمران خان نے پاکستان کرکٹ کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ وہ پاکستان کے واحد کپتان ہیں جنہوں نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1989 میں بھارت میں منعقد ہونے والے نہرو کپ میں بھی فتح حاصل کی۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار 1987 میں انگلینڈ سے سیریز جیتی۔ پھر بھارت کو بھارت میں ہرایا جبکہ ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ سیریز برابر رہی۔ عمران خان ہمیشہ نظم و ضبط پر بہت توجہ دیتے تھے۔ اس طرح اُن کی باؤلنگ میں بھی بہت ڈسپلن تھا انہوں نے 88ٹیسٹ کھیلے اور 22 رنز کی اوسط سے 362وکٹیں حاصل کیں۔ یہ ایک شاندار ریکارڈ ہے۔ وہ طویل عرصہ تک کرکٹ کھیلتے رہے لیکن کمال کی بات ہے کہ انہوں نے کبھی وائیڈ بال نہیں کی۔ یہ ان کی مہارت کا ثبوت ہے۔ جو برق رفتار باؤلر قریباً دو دہائیوں تک باؤلنگ کراتا رہے تو اس بات کا واضح امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ وائیڈ گیندیں بھی کرائے گا لیکن عمران خان نے اپنے پورے کیریئر میں وائیڈ بال نہ کرا کے ایک بھی فاضل رن نہیں دیا۔
آئن بوتھم
عمران خان کی طرح آئن بوتھم بھی آل راؤنڈر تھے۔ ان کا شمار بھی کرکٹ کی تاریخ کے عظیم آل رائونڈر میں ہوتا ہے۔ وہ انگلش ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ 80 کی دہائی میں آئن بوتھم کو انگلینڈ کا ٹیسٹ اور ون ڈے کا میچ ونر کھلاڑی تسلیم کیا جاتا تھا۔ آئن بوتھم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے ایک ٹیسٹ میچ میں سنچری بھی کی اور دس وکٹیں بھی اپنے نام کیں۔ انہوں نے 16برس تک کرکٹ کھیلی۔ وہ میڈم فاسٹ باؤلر تھے اور اپنی لائن اور لینتھ اور سوئنگ سے مخالف بلے بازوں کو بہت پریشان کرتے تھے۔ آئن بوتھم نے انگلینڈ کی طرف سے 102 ٹیسٹ اور 116 ایک روزہ میچز کھیلے۔ انہوں نے 383 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 145تھی۔ ان کی بے مثال خدمات کی وجہ سے آئن بوتھم کو 2009 میں آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم میں شامل کیا گیا اور پھر ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اپنے 16سالہ کرکٹ کیریئر میں انہوں نے کبھی وائیڈ بال نہیں کی۔ واہ کیا کنٹرول تھا اُن کو اپنی باؤلنگ پر۔
ڈینس لِلی
1970 کی دہائی میں آسٹریلیا کے سابق فاسٹ باؤلر ڈینس لِلی نے دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچایا ہوا تھا۔ اگرچہ اُس وقت اُن کے ساتھ بوب میسی جیف تھامسن اور واکر بھی اپنی طوفانی باؤلنگ سے دنیا بھر کے بلے بازوں کیلئے خطرہ بنے ہوئے تھے لیکن جو مقبولیت ڈینس لِلی کو حاصل تھی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ اگرچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تیز اور باؤنسی وکٹوں کے باؤلر تھے اور سست وکٹوں پر ان کی باؤلنگ بے اثر ہو جاتی تھی۔ اس کی ایک مثال آسٹریلیا کا 1980میں پاکستان کا دورہ تھا۔ اس دورے میں ڈینس لِلی بری طرح ناکام ہوئے۔ خاص طور پر فیصل آباد ٹیسٹ میں ان کی بہت پٹائی ہوئی۔ اس پر ڈینس لِلی نے کہا تھا کہ ان کی قبر فیصل آباد کی پچ پر بنائی جائے لیکن بڑے بڑے نقادوں کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت لِلی کا کیریئر خاتمے کے قریب تھا اور پھر پاکستان میں بے جان وکٹیں بنائی گئیں جس کی وجہ سے لِلی اپنی برق رفتار باؤلنگ کا جادو نہ جگا سکے۔
اس بحث کے قطع نظر ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک عظیم باؤلر تھے۔ اپنے کیریئر کے شروع میں وہ بہت تیز رفتار باؤلر تھے لیکن ان کی کمر میں کئی بار فریکچر ہوا جس کی وجہ سے 1984 میں ان کا کیریئر ختم ہو گیا۔ وہ کئی بار ٹیم سے باہر ہوئے اور پھر واپس آئے۔ 1984 میں جب وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو اس وقت سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں لینے کا ریکارڈ ان کے پاس تھا۔ 13سال کے کرکٹ کیریئر میں انہوں نے 70 ٹیسٹ اور 63 ایک روزہ میچز کھیلے۔ انہوں نے 355 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 103 تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 23بار پانچ وکٹیں اور سات بار دس وکٹیں حاصل کیں۔ اس آسٹریلوی عظیم باؤلر کو اپنی تیز رفتار باؤلنگ پر اتنا کنٹرول تھا کہ اپنے پورے کیریئر کے دوران انہوں نے ایک بھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔
رچرڈ ہیڈلی
رچرڈ ہیڈلی کو نیوزی لینڈ کا عظیم ترین باؤلر کہا جاتا ہے۔ وہ آل راؤنڈر تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے 17سال تک تن تنہا نیوزی لینڈ کی باؤلنگ کا بوجھ اٹھائے رکھا۔ اپنی برق رفتار باؤلنگ اور جارحانہ بلے بازی کی بدولت رچرڈ ہیڈلی نے نیوزی لینڈ کو کئی میچ جتوائے رچرڈ ہیڈلی ایک عظیم باؤلر تھے اور انہیں اپنی لائن اور لینتھ پر جتنا کنٹرول تھا وہ بہت کم باؤلرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 86 ٹیسٹ میچوں میں 431وکٹیں اپنے نام کیں۔ انہوں نے 3124 رنز بھی بنائے۔ علاوہ ازیں رچرڈ ہیڈلی نے اپنی ٹیم کی طرف سے 115ایک روزہ میچز بھی کھیلے اور 158وکٹیں حاصل کیں۔ ایک روزہ میچز میں انہوں نے 1751رنز بھی بنائے اپنے سترہ سالہ کیریئر میں انہوں نے ایک بھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔ وہ واقعی عظیم باؤلر کہلوانے کے حق دار ہیں۔
باب وِلس
انگلینڈ کے برق رفتار باؤلر باب وِلس باکمال باؤلر تھے۔ انہوں نے 1971 سے 1984 تک ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں میں انگلش باؤلنگ اٹیک کی قیادت کی۔ 1981 کی ایشنز سیریز میں انگلینڈ کی فتح میں باب وِلس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہیڈنگلے ٹیسٹ میں انگلینڈ فالو آن ہو چکا تھا لیکن پھر باب ولس نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 43رنز کے عوض آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ایشنز کی تاریخ میں باب وِلس کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ باب ولس نے 90 ٹیسٹ اور 64ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے 325 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 80وکٹیں اپنے نام کیں۔ اس وقت جیمز اینڈرسن، آئن بوتھم اور سٹوئرٹ براڈ کے بعدوہ چوتھے انگلش باؤلر ہیں جنہوں نے اتنی وکٹیں حاصل کی ہیں۔
باب وِلس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں نظم و ضبط کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ یہی نظم و ضبط ان کی باؤلنگ میں بھی نظر آتا ہے۔ اپنے پورے کیرئر میں اس عظیم باؤلر نے ایک بھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔ اس حوالے سے ان کا نام بھی زندہ رہے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ویسٹ انڈیز جہاں ایک سے بڑھ کر ایک فاسٹ باؤلر پیدا ہوا لیکن ان کا کوئی فاسٹ باؤلر یہ اعزاز حاصل نہ کر سکا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُن کے کسی فاسٹ باؤلر کو مکمل طور پر اپنی باؤلنگ پر کنٹرول حاصل نہیں تھا۔ ویسلے ہال، گرفتھ، اینڈی رابرٹس، جونیل گارنر، مائیکل ہولڈنگ، میلکم مارشل، کولنِ کرافٹ، سلوسٹر کلارک، کرٹلی امبروز، کورٹنی واش اور کئی دوسرے باؤلرز بھی منظر عام آئے اور انہوں نے اپنے فن کا سکہ جمایا لیکن ایک باؤلر بھی ایسا نہیں تھا جس نے وائیڈ بال نہ کرائی ہو۔ اسی طرح جنوبی افریقہ، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کا بھی کوئی ایسا باؤلر نہیں ملتا جس نے کبھی وائیڈ بال نہ کرائی ہو۔
اوپر ہم نے دنیا کے اُن برق رفتار باؤلرز کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے کیرئر میں کبھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔ اب ہم ان سپنرز کا بھی تذکرہ کریں گے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔
لانس گبز
ان کا تعلق ویسٹ انڈیز سے تھا۔ وہ بڑے زبردست آف سپنر تھے۔ ٹیسٹ میچوں کی تاریخ میں ان کا شمار کامیاب ترین سپنرز میں ہوتا ہے۔ انگلینڈ کے فریڈ ٹرومین کے بعد وہ دوسرے باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 300 سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے صرف تین ایک روزہ میچز کھیلے۔ 79 ٹیسٹ میچز کھیلنے والے اس عظیم آف سپنر نے پورے کیریئر میں ایک بھی وائیڈ بال نہ کرا کے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں اپنی باؤلنگ پر کتنا کنٹرول حاصل ہے۔ ویسٹ انڈیز کا کوئی فاسٹ باؤلر تو یہ اعزاز نہ پا سکا لیکن سپنر نے تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا۔
کلیری گریمٹ
سابق کرکٹر کلیری گریمٹ نیوزی لینڈ میں پیدا ہوئے لیکن بین الاقوامی کرکٹ میں انہوں نے آسٹریلیا کی نمائندگی کی وہ کرکٹ کے ابتدائی زمانوں کے شاندار سپن باؤلر تسلیم کئے جاتے ہیں ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے فلپر ایجاد کیا اور اس بال سے انہوں نے بہترین بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ شروع میں گریمٹ فاسٹ باؤلر بننے کے خواہش مند تھے لیکن ان کے ایک سکول ماسٹر نے انہیں سپن باؤلر بننے کا مشورہ دیا۔ استاد کا مشورہ مانتے ہوئے کلیری گریمٹ نے لیگ سپنر بننے کا فیصلہ کیا۔ 17برس کی عمر میں انہوں نے ویلنگٹن کے لئے فرسٹ کلاس میچ کھیلا لیکن اُس وقت نیوزی لینڈ ٹیسٹ میچز نہیں کھیلتا تھا اس لئے وہ نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا چلے گئے۔ یہ 1914 کی بات ہے۔
کلیر گریمٹ نے اپنے کیریئر کے دوران 37ٹیسٹ کھیلے اس شاندار لیگ سپنر نے 14453 گیندیں کرائیں جن میں کوئی وائیڈ بال نہیں تھی انہوں نے 216 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں اور 21مرتبہ پانچ وکٹیں اڑائیں۔
گیری سوبرز
لانس گبز کے بعد ویسٹ انڈیز کے دوسرے سپنر گیری سوبرز نے یہ کارنامہ سرانجام دیا جو قریباً 20 برس کرکٹ کھیلتے رہے اور لیگ سپن باؤلنگ میں بھی نام کمایا۔ ان کا شمار کرکٹ کی تاریخ کے عظیم آل راؤنڈرز میں کیا جاتا ہے۔ گیری سوبرز نے 20660 گیندیں کرائیں اور ایک گیند بھی وائیڈ نہیں کی تھی۔ باربادوس میں پیدا ہونے والے اس کرکٹر نے 93ٹیسٹ میچز اور صرف ایک ون ڈے میچ کھیلا۔ انہوں نے 236 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں۔ ویسٹ انڈیز کے یہ دوسرے باؤلر ہیں جنہوں نے اپنے طویل کیریئر کے دوران اپنے ریکارڈ پر یہ داغ نہیں لگنے دیا کہ انہوں نے کوئی وائیڈ بال کرائی ہے۔
ڈیرک انڈر وڈ
انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیرک انڈروڈ بھی حیران کن باؤلر تھے اگرچہ وہ بائیں ہاتھ سے سپن باؤلنگ کرتے تھے لیکن اگر پچ گیلی ہوتی تو بلے بازوں کے لئے اُن کو کھیلنا قریباً ناممکن ہو جاتا۔ انڈروڈ کی شہرت یہ تھی کہ وہ تکنیکی لحاظ سے بڑے شاندار باؤلر تھے اور ان پر مستقل مزاجی بہت پائی جاتی تھی۔ ان کی میڈیم پیس بھی بلے بازوں کے لئے خطرہ بن جاتی۔ ان کی ان سوئنگ بال بھی بڑی مشہور تھی جس سے بلے باز ایل بی ڈبلیو ہو جاتے۔
1969 سے 1973 تک انڈروڈ آئی سی سی رینکنگ میں سب سے اوپر تھے۔
ڈیرک انڈروڈ نے 86 ٹیسٹ اور 26ایک روزہ میچز کھیلے۔ انہوں نے 297 ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 26تھی۔ اتنے عرصے تک کرکٹ کھیلنے کے باوجود انڈروڈ کی باؤلنگ میں نظم و ضبط برقرار رہا اور انہوں نے اپنے پورے کیرئر میں ایک بھی وائیڈ بال نہیں کرائی۔ چھ فاسٹ باؤلر اور چار سپنرز یعنی کرکٹ کی تاریخ کے 10باؤلرز ایسے ہیں جنہوں نے وائیڈ بال نہ کرا کے اپنے ریکارڈ کو مزید شاندار بنایا۔