ارتھ دی ڈیسٹینیشن کے بہت سے مناظر میں ایسے لگتا ہے جیسے مجبوراً کامیڈی کا تڑکا لگایا جا رہا ہے۔
تحریر: تحریم عظیم
مہیش بھٹ نے 1982ء میں اپنی ذاتی زندگی پر مبنی ایک فلم ارتھ بنائی تھی جس میں ایک ایسی عورت کی داستان بتائی گئی تھی جس کا ہدائیت کار شوہر ایک اداکارہ سے محبت میں گرفتار ہونے کے بعد اسے طلاق دے دیتا ہے۔ یہ عورت جس کا اس دنیا میں اپنے شوہر کے سوا دوسرا کوئی نہیں تھا، طلاق کے بعد خود کو مظبوط اور خودمختار بناتی ہے۔ 1982ء کے لحاظ سے یہ بہت ہی بولڈ فلم تھی جس نے اس وقت کے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا تھا۔
ارتھ کے مرکزی کردار شبانہ اعظمی، کلبھوشن خاربندا، سمیتا پٹیل اور راج کرن نے نبھائے تھے۔ یہ فلم بھارتی سنیما کی بہترین فلموں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔ پینتیس سال بعد شان شاہد نے مہیش بھٹ کی فرمائش پر اس فلم کا ایک نیا ورژن پاکستانی سنیما بینوں کو پیش کیا۔ یاد رہے کہ یہ اس فلم کا پہلا ریمیک نہیں ہے، 1993ء میں ایک تامل فلم بھی اسی فلم سے متاثر ہو کر بنائی جا چکی ہے۔
شان شاہد کی اس فلم میں مرکزی کرداروں میں شان شاہد کے علاوہ، عظمیٰ حسن، حمائمہ ملک اور محب مرزا شامل ہیں۔ محب مرزا اس فلم میں ایک فلم ڈائریکٹر عمر کا کردار نبھا رہے ہیں۔ عمر کی بیوی عظمیٰ (عظمیٰ حسن) شادی سے پہلے ایک مصنفہ تھی مگر شادی کے بعد وہ ایک نارمل ہائوس وائف کی طرح اپنے خواب چھوڑ چکی ہوتی ہے۔ عمر اپنی ایک فلم میں اداکارہ عمائمہ (حمائمہ ملک) کو کاسٹ کرتا ہے۔ فلم کی عکس بندی کرتے کرتے کب دونوں ایک دوسرے کی محبت میں ڈوب جاتے ہیں، یہ نہ انہیں پتا چلتا ہے اور نہ ہی سنیما بینوں کو۔ دوسری طرف علی (شان شاہد) نوے کی دہائی کے ایک مشہور گلوکار تھے جو شادی کے بعد سب چھوڑ چھاڑ کر ملک سے باہر جا بستا ہے۔ دس سال بعد ایک ناکام شادی کو ختم کرکے وہ واپس آتا ہے تو اسے یہ دیکھ کر دھچکا لگتا ہے کہ لوگ اسے بھول چکے ہیں۔ عظمیٰ جو کہ علی کی بہت بڑی فین ہے، اپنی طلاق کے بعد علی سے ملتی ہے اور اپنی اپنی زندگی میں پریشان علی اور عظمیٰ ایک دوسرے کو اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
فلم میں عظمیٰ کے ڈائیلاگز بہت جاندار ہیں، باقی کرداروں کے ڈائیلاگز کو نازیبا الفاظ کے سہارے متاثر کن بنانے کی ایک بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ ارتھ میں قابلِ اعتراض الفاظ کے استعمال کے علاوہ شراب نوشی بھی ضرورت سے زیادہ دکھائی گئی ہے جو کہ ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتی۔ فلم کے گانے متاثر کُن ہیں خاص طور پر جینے دو اور مرشد جی مجھے بہت اچھے لگے۔ اس فلم کی موسیقی ساحر علی بگا نے دی ہے جبکہ گلوکاروں میں فلم کے تین اداکار یعنی شان، حمائمہ اور عظمیٰ کے علاوہ عائمہ بیگ اور راحت فتح علی خان بھی شامل ہیں۔
ارتھ دی ڈیسٹینیشن کے بہت سے مناظر میں ایسے لگتا ہے جیسے مجبوراً کامیڈی کا تڑکا لگایا جا رہا ہے۔ اس غیر ضروری کامیڈی کی وجہ سے فلم کا اصل پیغام دھندھلا سا گیا ہے۔ اس فلم کی پروموشن میں وومن ایمپاورمنٹ کا سہارہ لیا گیا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ایک مشرقی عورت نکاح کے کاغذوں پر دستخط کرکے اپنے خوابوں سے دستبرداری کا اعلان کرتی ہے اور طلاق کو ایک عورت کی زندگی کا خاتمہ سمجھا جاتا ہے۔ ارتھ میں بنیادی طور پر ان روایات کو توڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد ایسے لگتا ہے کہ اگر علی اور عظمیٰ کے کرداروں پر مزید محنت کی جاتی اور غیر ضروری کامیڈی کو کم کیا جاتا تو یہ پیغام بہتر انداز میں عوام تک پہنچ سکتا تھا۔
اس فلم کا اختتام پرانی ارتھ سے مختلف ہے۔ پینتیس سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس دوران دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آ گئیں ہیں۔ انہی تبدیلیوں کے مدِ نظر سکرپٹ میں بہت سی تبدیلیاں بھی کی گئیں ہیں۔ جہاں کچھ تبدیلیاں اچھی لگتی ہیں وہیں اس فلم میں بہت سی چیزیں فلم دیکھنے والوں کو بور بھی کرتی ہیں۔ حمائمہ ملک کے کردار کو بہت زیادہ گلیمرس بنانے کے لیے باتھ ٹب کا سہارہ لیا گیا ہے۔ پوری فلم میں حمائمہ یا تو باتھ ٹب میں موجود ہیں یا محب مرزا کی بانہوں میں۔ جہاں یہ باتھ ٹب ناظرین کے صبر کا امتحان لیتا ہے وہیں عظمیٰ کی سلو موشن میں اڑتی ہوئی زلفیں اور علی کے کلوز اپ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ایک مقام پر آ کر تو دل کرتا ہے کہ کاش ریموٹ ہوتا اور ہم اس فلم کو فارورڈ کر سکتے۔
ارتھ دیکھنے کے بعد ایسے لگتا ہے جیسے شان شاہد فلم کی کہانی سے زیادہ حمائمہ ملک کے جسم کے ذریعے فلم کو چلانا چاہتے ہیں۔ پوری فلم کے دوران حمائمہ ملک اور محب مرزا کی قربتوں کے مناظر بھی ناظرین کو پہلو بدلنے پر مجبور کرتے رہے۔ جو لوگ اپنی فیملی کے ساتھ یہ فلم دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں اپنے اس ارادے پر نظرِ ثانی کر لینی چاہئیے۔