کیک کو جدید پاکستانی سنیما کی تاریخ کی بہترین فلم کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس میں ہم سب اپنی زندگیوں کی ایک جھلک ضرور دیکھ سکتے ہیں.
لاہور: (تحریم عظیم) آمنہ شیخ اور صنم سعید کی فلم کیک کا ٹریلر دیکھنے میں جتنا دلچسپ لگ رہا تھا کیا فلم بھی اتنی ہی دلچسپ ہوگی؟ یہ سوال اس روز سے میرے ذہن میں کھٹک رہا تھا جب سے مجھے بتایا گیا تھا کہ اس فلم کا اردو میں ریویو کرنے کے لیے میرا انتخاب کیا گیا ہے۔ آج میرے یہ تمام شکوک و شبہات فلم دیکھنے کے بعد ہوا ہو گئے جس پر میں بے حد خوش ہوں۔
کیک کو جدید پاکستانی سنیما کی تاریخ کی بہترین فلم کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ عاصم عباسی کی ہدائیت کردی یہ فلم ایک فیملی ڈرامہ ہے جسے ہم سب اپنی زندگیوں سے عبارت کر سکتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں آمنہ شیخ ، سنم سعید، عدنان ملک، سید محمد احمد، بیو رانا ظفر اور فارس خالد شامل ہیں۔
اس فلم کی کہانی ایک بیمار شادی شدہ جوڑے (سید محمد احمد اور بیو رانا ظفر) سے شروع ہوتی ہے جن کی دیکھ بھال ان کی بیٹی زرین (آمنہ شیخ) کر رہی ہے۔ والد کی اچانک طبعیت خرابی اور اسپتال میں منتقلی کے بعد زرین بیرونِ ملک مقیم اپنے بھائی اور بہن کو والد کی خراب حالت کا پیغام بھجواتی ہے جس کے بعد زارا (صنم سعید) فوراً ملک واپس آجاتی ہے۔ کچھ ہی دن بعد زین (فارس خالد) بھی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔
اس فلم کی بقیہ کہانی میں زارا زرین کی مدد سے اپنے ماضی کی وہ گتھی بھی سلجھاتی ہے جس نے ان سب کی زندگیوں کو منجمند سا کر دیا تھا۔ اس دوران ان میں عام بہنوں کی طرح ہلکی پھلکی جھڑپ بھی ہوتی ہے تو کبھی معاملہ بہت سنجیدگی بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اتنی لڑائی کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی قریبی ساتھی بھی ہیں۔ ایک دوسرے کو جذباتی سہارہ دیتی ہوئی یہ بہنیں کیسے ماضی کی پہیلیوں کو آشکار کرتی ہیں، یہ دیکھنے کے لائق ہے۔
فلم میں ماں کا کردار سب سے خاص ہے جو کہ بیو رانا ظفر نے ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مکالموں کی ادائیگی اور تاثرات سے فلم میں ایک الگ جان ڈال دی ہے۔ فلم کے دوران آپ ان کے کردار سے محبت کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ زرین کا کردار بھی خاصا مضبوط ہے۔ اپنے ماں باپ اور گھر کو سنبھالتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر ایک تلخی سی پیدا ہو گئی ہے جس کو آمنہ شیخ نے اپنی بہترین اداکارانہ صلاحیتوں سے سنیما سکرین پر بخوبی دکھایا ہے۔
اس فلم کے پوسٹر پر ایک سطر لکھی ہوئی ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے، ’زندگی آپ کو ہر چیز کے لیے تیار کرتی ہے سوائے خاندان کے‘۔ ہم سب اپنی زندگیوں میں ہونے والے تجربات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اگر کچھ نہیں سیکھتے تو اپنے رشتوں کو کیسے نبھانا ہے، یہی نہیں سیکھ پاتے۔ زندگی کی پریشانیوں میں گم، کب وقت تیزی سے ہماری انگلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ اگر باقی کچھ رہ جاتا ہے تو بس یادیں۔ اس فلم میں بھی کچھ ایسا ہی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کیک کی موسیقی دل چھو لینے والی ہے خاص طور پر ’مونیکا او مائی ڈارلنگ‘ کو جس طرح اس فلم میں استعمال کیا گیا ہے وہ اس گانے کا مطلب آپ کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔
کیک نے بلاشبہ آنے والے فلم سازوں کے لیے ایک مقابلے کی ایسی فضاء پیدا کر دی ہے جو پاکستانی سنیما کی ترقی کے لیے اشد ضروری تھی۔ امید کی جاتی ہے کہ اب دیگر فلم ساز بھی روائیتی شادی بیاہ اور دشمنیوں پر مبنی فلموں کو چھوڑ کر کیک جیسے اچھوتے مگر ایسے موضوعات کا انتخاب کریں گے جو کہ ہماری زندگیوں کے بارے میں ہوں گے۔
ریٹنگ: 9.5/10
اس فلم کا ٹریلر آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔