لاہور: (ویب ڈیسک) کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں وائرل ہونا شروع ہو چکی ہیں جن میں اس سے بچنے کیلئے ٹوٹکوں اور مشوروں کی بھرمار ہو چکی ہے لیکن عقل مندوں کیلئے ان سے بچنا ہی مناسب ہے۔
چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس 155 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان اور طبی ماہرین اس کو ختم کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی دوائی ایجاد نہیں ہوئی جو اس مہلک مرض کا تدارک کر سکے لیکن اس سے بچاؤ کیلئے انٹرنیٹ پر مفت مشوروں کی بھرمار ہے۔
کرونا وائرس سے بچنے کیلئے لہسن کا استعمال
سوشل میڈیا صارفین کو ان دنوں کہیں نہ کہیں سے ایسی پوسٹس ضرور مل جاتی ہیں جن میں کرونا وائرس سے بچنے کیلئے لہسن کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ایسی پوسٹس وائرل ہونے کے بعد عالمی ادارہ صحت کو بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ سچ ہے کہ لہسن کھانے کے بہت سے فوائد ہیں تاہم اس بات کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں کہ اس سے کرونا وائرس سے حفاظت ممکن ہے۔
معجزاتی معدنیات
معروف یوٹیوبر جورڈں سیتھر جن کے ہزاروں فالورز ہیں نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘’معجزاتی معدنیات’’ سے کرونا وائرس جیسے موذی مرض کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ معجزاتی فارمولہ کلورین ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ جورڈن سیتھنر اور ان جیسے دیگر افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس بات کو پھیلایا گیا کہ اس سے ناصرف کرونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ کینسر سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
گھر پر تیار کردہ ہینڈ سینیٹائزر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی جراثیم کش ادویات جن میں ہینڈ سینیٹائزر سرفہرست ہیں کی کمی ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس کو گھر پر بنانے کے فارمولے بھی وائرل ہو چکے ہیں۔
پندرہ منٹ کے وقفے سے پانی کا استعمال کرونا سے بچاؤ میں معاون؟
سوشل میڈیا پر ان دنوں کرونا وائرس کے تدارک کیلئے ایک اور پوسٹ بہت پڑھی جا رہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک مایہ ناز ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر ہر پندرہ منٹ کے بعد پانی پیا جائے تو کرونا وائرس پھپھڑوں کی بجائے معدے میں چلا جائے گا اور پاخانے یا پیشاب کے ذریعے جسم سے نکل جائے گا۔ اس من گھڑت بات کو بغیر تصدیق کے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔
گرمی کی شدت سے کرونا وائرس ختم ہو جاتا ہے
ایک اور دلچسپ مشورہ جو ان دنوں عوام کو دیا جا رہا ہے ان میں سے سرفہرست یہ ہے کہ گرمی کی شدت کرونا وائرس کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے حالانکہ طبی ماہرین کے نزدیک ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ اس وائرس بارے کچھ پتا نہیں کہ وہ زیادہ ٹمپریچر میں زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟