صحت کے لئے نقصان دہ غذائیں

Published On 24 September,2020 09:43 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) زندگی کے معاملات میں کوئی مشکل در پیش آئے یا کسی مسئلے کا حل جاننا ہو ،مدد کے لیے ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی رائے لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کی وجہ ایک لفظ میں جاننے کی کوشش کریں تو جواب ملے گا ’’تجربہ‘‘۔ہمارے بڑے اپنی زندگی کے سفر میں ہر سرد ،گرم اور اونچ ،نیچ کا سامنا کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ کس قسم کے حالات کا سامنا کیسے کیا جائے یا ایسی صورتحال میں کیا فیصلہ لینا بہتر رہے گا،یعنی ثابت ہوا کہ کسی بھی چیز کا ماہر متعلقہ معاملے میں بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔خوراک سے متعلق بھی ماہرینِ غذائیات کی رائے لینا وہ اہم معاملہ ہے جس کے متعلق سوچا تک نہیں جاتا۔

بات کی جائے غذا کی توہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری صحت کا دارو مدار خوراک پر ہے۔دن بھر ہم یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جو ہم کھارہے ہیں اس کا ہماری صحت اور جسم پر کیا اثر ہو گا محض دل کی خواہش کے مطابق کھا لیتے ہیں ،جبکہ ایک غیر ملکی ماہرِ غذائیات نے کہا ہے کہ ’’آپ ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسا آپ کھاتے ہیں‘‘ ہر انسان کی جسمانی ضروریات مختلف ہو تی ہیں جن کے مطابق اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں۔کسی کی صحت پر ڈیری مصنو عات کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو کوئی مختلف غذائوں کو ہضم نہیں کر پاتا۔چونکہ یہ مشورہ مفت نہیں ہے اور اسے لینے کے لیے اچھی خاصی رقم بھی خرچ کرنا پڑتی ہے،لہٰذا اخراجات کی کمی کے باعث بھی ہر انسان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔آپ کو کیا کھانا چاہیے اس کا جواب شاید آپ کو خود ہی جاننا پڑے لیکن چند وہ غذائیں جنہیں استعمال کرنے سے دنیا بھر کے غذائی ماہرین سختی سے منع کرتے ہیں آئیے ان کے متعلق آپ کو تفصیل سے بتائیں۔

غیر ملکی غذائی ماہر’’چیلسی ایمر‘‘کے مطابق آپ کے جسم کو شدید نقصان پہنچانے والی غذائوں میں سب سے پہلا نمبر ’’مصنوعی میٹھے‘‘ کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میں اپنے کلینک پر آنے والے تمام افراد کو یہی مشورہ دیتی ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو میٹھی غذائیں کھانے سے اجتناب کریں۔اگر آپ میٹھا کھانے کے شوقین ہیں تو شہد کا انتخاب کریں یہ ہر لحاظ سے صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔اس کے علاوہ شکر کھائیں یا میٹھے پھل استعمال کریں،لیکن مصنوعی میٹھے سے تیار کردہ مشروبات یا غذائوں کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کہ جسم کو آہستہ آہستہ زہر دینا۔دنیا بھر کے غذائی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موٹاپے کی اہم وجہ میٹھے کا زیادہ استعمال ہے۔اس کے علاوہ دو خطر ناک ترین بیماریاں ہارٹ اٹیک اور ذیا بیطس جن کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کی وجہ بھی ضرورت سے زیادہ اور غیر صحت مندانہ میٹھے کا استعمال ہے۔

اپنی خواہش کے مطابق نہ کھانے اور دل پر مسلسل جبر کرنے سے اکثر طبیعت میں چڑ چڑا پن بھی آ جاتا ہے،لہٰذا ایسا ضروری نہیں کہ ہر وہ چیز جسے ماہرینِ غذائیات صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیں اسے کھانا چھوڑ دیا جائے،بلکہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس کا متبادل تلا ش کریں۔مثال کے طور پر مائیکروویو پاپ کارن کیمیکل سے محفوظ کردہ ایسی غذا ہے جو کھانے میں تو ہلکی پھلکی معلوم ہوتی ہے ،لیکن ہمیں شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ اسے ’’محفوظ‘‘ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل آپ کی صحت پر کس قسم کے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاپ کارن ہلکی غذا ہے اور اسے بچے ،بڑے سبھی استعمال کر سکتے ہیں،لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق گراسری سٹور سے پیک شدہ پاپ کارن خریدنے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ مکئی کے دانے لے کر ان سے پاپ کارن گھر پر تیار کریں۔اس پر ہلکا سا نمک اور زیتون کا تیل چھڑک کر کھائیں تو آپ کی صحت پر بہترین اثرات مرتب ہوں گے۔

ہماری پُرانی نسل عمر میں ہم سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود کیوں آج تک صحت مند ہے ،اور ان کے جسموں میں ہم سے زیادہ طاقت بھی موجود ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ خالص اور ’’گھریلو‘‘غذائوں کا استعمال ہے۔چند دہائیاں پہلے تک بازاروں میں مکھن اور گھی جیسی مصنوعات فروخت ہی نہیں کی جاتی تھیں کیونکہ لوگ گھروں میں خود تیار کرتے تھے۔اگر کوئی خریدنا بھی چاہتا تو ایک دوسرے سے گھروں میں جا کر خریداری کی جاتی تھی۔یہ سو فیصد خالص ہونے کے صحت کے لیے بھی بہترین تھے۔خالص غذائوں کے سبب لوگوں کے معدے ٹھیک رہتے تھے،اس لیے ہر عمر کے افراد انہیں با آسانی ہضم بھی کر لیا کرتے تھے۔جبکہ آج گھروں میں گھی اور مکھن تیار کرنے کا رواج ہی ختم ہو چکا ہے۔وقت کی کمی کا رونا رو کر اپنی آسانی کی خاطر ہم مارکیٹ سے کیمیکل زدہ ،غیر خالص گھی اور مکھن’’لو کیلوریز‘‘ کا لیبل پڑھ کر خرید لیتے ہیں،لیکن در حقیقت ان مصنوعات میں گھر پر تیار شدہ مکھن سے کہیں زیادہ کیلوریز پائی جاتی ہیں۔غذائی ماہر’’فالیٹرا‘‘ کے مطابق کسی بھی عمر کے افراد کے لیے گھر پہ تیار کی جانے والی ڈیری مصنوعات بہترین ہیں اور صحت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتیں۔

غذائی ماہر’’ہانجوین‘‘کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ روزانہ سکول لنچ کے طور پر فریز شدہ کھانوں کو ترجیح دیتی تھیں ،کیونکہ انہیں اوون میں آسانی سے گرم کر کے استعمال کر لیا جاتا تھا اور وقت کی بچت بھی ہو جاتی تھی،لیکن غذا کی اقسام اور اس کے صحت پر اچھے ،بُرے اثرات سے متعلق جب انہوں نے تفصیلاً پڑھا تو جانا کہ مارکیٹ میں دستیاب انہی محفوظ شدہ غذائوں میں ریفائنڈ میدہ،سوڈیم کی بڑی مقدار اور غذا کو لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے اضافی تیل کے علاوہ مختلف کیمیکل بھی شامل کیے جاتے ہیں،اور یہ وہ تمام اشیاء ہیں جو آپ کی صحت کیلئے کسی طرح فائدے مند نہیں ہیں۔

’’مِشل جیلن‘‘نامی ماہرِ غذائیات کے مطابق سولہ سال کی عمر تک ’’چیز‘‘ہم سب کی پسندیدہ ترین خوراک ہوتا ہے،خاص طور پر اگر اسے برگر میں رکھ کر کھایا جائے۔پنیر کو گھر پر تیار کر کے کھانے میں کوئی نقصان نہیں ہے لیکن مارکیٹ میں دستیاب چیز سلائس یا چیز سپریڈ میں رنگ مصنوعی اجزاء بڑی تعداد میں شامل کیے جاتے ہیں۔مِشل کا کہنا ہے کہ میں اسے ’’پلاسٹک چیز‘‘ کہنا پسند کروں گی کیونکہ اس میں خالص اور قدرتی اجزاء نا ہونے کے برابر ہیں۔

ہماری خوراک کا اہم ترین جز ’’دہی‘‘ جس کا ناشتے میں استعمال نہ صرف بہترین ہے بلکہ آپ کے معدے کے متعدد مسائل بھی حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ خالص دہی تلاش کرنا آج کل نا ممکن ہو چکا ہے۔عام دکانوں پر دستیاب دہی بے حد پتلا ہوتا ہے اور ذائقے میں بھی اچھا نہیں لگتا۔متبادل کے طور پر لوگ پیکنگ میں دستیاب دہی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ کم از کم دیکھنے میں صاف ستھرا اور گاڑھا بھی ہوتا ہے لیکن در حقیقت اس دہی میں پچاس فیصد کیلوریز شامل ہوتی ہیں۔ آپ نے یقینا محسوس کیا ہو گا کہ پیک شدہ دہی ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے،جس کی وجہ اس میں شامل مصنوعی مٹھا س کا استعمال ہے۔ماہرین کی رائے کے مطابق کوشش کریں کہ دہی بھی گھر پر ہی جماکر استعمال کیا جائے یہ آپ کی صحت کے لیے بہترین ہے۔

تحریر : نجف زہرا تقوی