پہاڑوں کے دامن میں مسکراتی پاکستان کی دلکش جھیلیں

Published On 23 Sep 2015 11:08 AM 

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان جیسا ملک شاید ہی دنیا میں کہیں ہو جوکہ اپنی قدرتی و ثقافتی خوبصورتی کی وجہ سے بھی اپنی مثال آپ ہے ، پاکستان کی دلکش جھیلیں دنیا بھر سے لوگ دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔

جھیل سیف الملوک
ایسی ہی خوبصورت جھیل میں جھیل سیف الملوک ہے جس کی دلکشی کی گواہی اس کو باہوں میں لیے ہوئے پہاڑ دیتے ہیں ، یہ دلکش جھیل مانسہرہ میں واقع ہے۔ یہاں ایک افسانوی داستان قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے ۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے ۔ جھیل سیف الملوک وادیٔ کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے ، یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں ۔ خاص طور پر جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو سا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔

آنسو جھیل
آنسو جھیل وادی کاغان میں واقع ہے جو ضلع مانسہرہ ، خیبر پختونخوا میں ملکہ پربت کے پاس واقع ہے ۔ لگ بھگ سولہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس جھیل کو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کا نام دیا گیا اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

یہ جھیل درمیان سے برف سے جمی رہتی ہے جس سے یہ کسی آنکھ کی پتلی سے نکلنے والے آنسو جیسی لگتی ہے تاہم یہاں جانے کے خواہش مند افراد کے لیے اس تک رسائی زیادہ آسان نہیں کیونکہ ایک تو یہاں آنے کا بہترین موسم مئی سے اکتوبر ہے اور پھر وہاں رہائش کے لیے کوئی ہوٹل وغیرہ موجود نہیں اور کیمپنگ کرنا پڑتی ہے مگر درجۂ حرارت میں اچانک کمی خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

دودی پتسر جھیل
دودی پتسر جھیل وادیٔ کاغان کے انتہائی شمال میں 4175 میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران کے علاقے جل کھاڈ (Jalkhad) سے چار گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے ، مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے۔ درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کے پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔

یہ علاقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگزار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گزار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

لولوسر جھیل
لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چلاس روڈ پر 3353 میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادیٔ کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔

لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔

ستپارہ جھیل
سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے۔

ستپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے اس کی وجہ یہ ایک دیومالائی کہانی ہے، جو یہ ہے کہ جس جگہ یہ جھیل ہے وہاں صدیوں پہلے ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اس گاؤں میں کوئی بزرگ فقیر کے بھیس میں لوگوں کو آزمانے کے لیے آئے۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے پینے کی چیزیں مانگی، سوائے ایک بڑھیا کے کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ اس بزرگ نے بستی والوں سے ناراض ہو کر انہیں بد دعا دی لیکن ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ نیک بڑھیا جس نے ان کی مدد کی تھی، اسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ دعا قبول ہوئی اور راتوں رات گاؤں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جس جگہ نیک دل بڑھیا کا گھر تھا وہاں پانی اس سے دور رہا ، یوں یہ جزیرہ آج بھی سلامت ہے۔

رش جھیل
رش جھیل پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے اور یہ 5098 میٹر کی بلندی پر رش پری نامی چوٹی کے نزدیک واقع ہے ۔ یہ دنیا کی پچیسویں بلند ترین چوٹی پر واقع جھیل ہے، یہاں تک رسائی کے لئے نگر اور ہوپر گلیشیئر کے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور اس راستے نہایت ہی دلفریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کرمبر جھیل

کرمبر جھیل خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے درمیان میں واقع ہے اور یہ پاکستان کی دوسری جبکہ دنیا کی 31 ویں بلند ترین جھیل ہے ۔ 14121 فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل حیاتیاتی طور پر ایک فعال جھیل ہے ۔ اس جھیل کی گہرائی تقریباً 55 میٹر٬ لمبائی تقریباً 4 کلو میٹر اور چوڑائی 2 کلو میٹر ہے۔
بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت جھیل چترال شہر سے ڈھائی سو کلو میٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے ، بروغل کی وادی اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں، شاندار کرمبر جھیل اور پچیس سے زیادہ چھوٹی جھیلوں کے ساتھ تین اہم گزرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ گزرگاہیں اس وادی کو مغرب میں کانخن پاس کے ذریعے واخان کوریڈور سے ملاتی ہیں۔

ہالیجی جھیل
ہالیجی جھیل کراچی سے 80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ لگ بھگ بائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جھیل کا قطر اٹھارہ کلو میٹر ہے۔ ہالیجی جھیل پر کبھی موسمِ سرما میں لاکھوں پرندے ہجرت کر کے عارضی بسیرا کرتے تھے۔

یہاں پرندوں کی سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں مگر اب یہاں بدیسی موسمی پرندے  خال خال  ہی نظر آتے ہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل ایک طرف رفتہ رفتہ خشک ہو رہی ہے تو دوسری جانب خود رو جھاڑیاں تیزی سے اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

لوئر کچورا جھیل
لوئر کچورا جھیل یا شنگریلا جھیل اصل میں شنگریلا ریسٹ ہاؤس کا حصّہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے-

شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریلا ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔

شندور جھیل

پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جا نکلتا ہے۔

.نوٹ : پاکستان کی خوبصورت جھیلوں کی سیر کا سلسلہ قسط وار شروع کیا گیا ، اس کی دوسری قسط آئندہ بدھ کو شائع کی جائے گی