جعل ساز گروپ نے فرضی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کے ذریعے زمینوں کی خرید و فروخت میں گھپلے سے عوام کو اربوں روپے سے محروم کر دیا
لاہور (دنیا نیوز ) دنیا نیوز نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی سکینڈل بے نقاب کر دیا ، جعل ساز گروپ نے فرضی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کے ذریعے اربوں روپے بٹور کر عوام کو کنگال کر دیا ہے ۔ متاثرین نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ، دیوانی کیس اصل عدالت میں ہو تو انصاف کیلئے نسل در نسل دھکے کھائیں لیکن اگر عدالت بھی جعلی ، فیصلہ بھی جعلی تو پھر کہاں جائیں ۔ سوال اہم ترین لیکن جب معاملہ زندگی بھر کی کمائی کا ہو تو مشکلات بھی معنی نہیں رکھتی ۔ دنیا نیوز پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی سکینڈل منظر عام پر لے آیا لہٰذا عوام ہوشیار خبردار ہو کر تصدیق کریں کہیں آپ کی جائیداد کی جعلی دستاویزات تو نہیں بن گئیں ۔
اگر آپ کے گھر دکان یا اراضی پر حکم امتناعی آئے تو سب سے پہلے اصلی عدالت میں حاضر ہوں کیونکہ جعل سازوں کا ایک گروہ راتوں رات ایسے ہزاروں ایکڑ اراضی کا مالک بن چکا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی ۔ پولیس اور اینٹی کرپشن کی ناک تلے گھنائونا کاروبار ہوتا رہا لیکن متعلقہ ادارے نہ جاگے ۔ حکام کی آنکھ بھی نہ کھلی ، دنیا نیوز نے اربوں روپے کے فراڈ کا کھوج لگایا اور معاملے کی تہہ تک جا پہنچا ۔ کبھی آتشزدگی ، کبھی سرکاری اہلکاروں کی غفلت ، اراضی کا سرکاری ریکارڈ گوداموں میں ضائع ہوگیا ۔ جعل سازوں نے فائدہ اٹھایا ، اصل مالکان در بدر ہوگئے ۔ سرکاری ریکارڈ ضائع ہوا تو جعل سازوں نے دماغ لڑایا ۔ آج کے دور میں بیٹھ کر پچاس سال پہلے کا ریکارڈ اپنے نام کرایا ، ہیرا پھیری ایسی کہ شیطان کو بھی مات دے دی ۔ جعل سازوں کے اس گروہ کا ماسٹر مائنڈ لاہور کے علاقے سمن آباد کا چودھری ارشد تھا جس نے عدالتوں کے جعلی فیصلوں کا استعمال کیا ۔
ایسی جعلی عدالتی دستاویزات تیار کیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ پراپرٹی اصل میں ان جعلسازوں ہی کی ملکیت ہے ۔ جعلی عدالتی فیصلے کچھ اس طرح سے تیار کئے گئے کہ ارشد مدعی اور ولی محمد مخالف ، جبکہ کسی جگہ ارشد مخالف اور گروہ کے دیگر کارندے مدعی بن جاتے ۔ ملزم ارشد کی اس ساری جعل سازی میں بعض وکلاء نے بھی خوب ہاتھ دھوئے اور سادہ لوح شہریوں کو جمع پونجی سے محروم کرنے میں جعل سازوں کا خوب ہاتھ بٹایا ۔ دلچسپ بات یہ کہ ان جعلی فیصلوں کا علم اصلی عدالتوں کو ہے نہ ہی ان ججوں کو جن کے جعلی دستخط ہوئے اور فیصلے جاری ہوئے ، یوں ملزم ارشد اور اس کا گروہ جعلسازی کے بل بوتےپر راتوں رات اربوں کھربوں کی جعلی ڈگریاں بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔ گروہ کے سرغنہ چودھری ارشد نے یہ دھندا چودہ سال پہلے شروع کیا ۔ اب تک ایک لاکھ ترانوے ہزار کنال زمین کے جعلی فیصلوں کا انکشاف ہو چکا ، نہ جانے ایسے کتنے جعلی عدالتی فیصلے اس گروہ کے پاس اب بھی موجود ہیں ، میاں آفتاب بھی اسی گروہ کا نشانہ بنے ۔ ان کی والدہ کی دو سو کنال زمین جعلی فیصلوں کے ذریعے ہڑپ کرنے کی کوشش ہوئی ۔ سن دو ہزار میں انہیں جعل سازی کا علم ہوا تو مشکلات کا لمبا سلسلہ چل نکلا ۔ میاں آفتاب نے سول عدالت سے رجوع کیا ، سولہ سال گزر گئے لیکن فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ۔ زمین کی مالکن بھی انتقال کرچکی ہیں ،
جعلی عدالتی فیصلوں سے کمائی کا گورکھ دھندہ ایسا کہ نقل پر اصل کا گمان گزرتا ہے ۔ سارے فراڈ میں اہم کردار اس علاقے کا پٹواری بھی ادا کرتا تھا جو ان معاملات میں ان جعلسازوں کی مدد کرتا ۔ جب پراپرٹی کا اصل مالک اسے فروخت کرنے کی کوشش کرتا تو ملزم ارشد اور اس کا جعلساز گروہ جعلی عدالتی فیصلہ لے کر اس پٹواری کے پاس جا پہنچتا ، یوں سودا کھٹائی میں پڑ جاتا ، کیونکہ جعلساز اس عدالتی فیصلے کے ذریعے یہ دعویٰ کرتا کہ وہی اصل مالک ہے اور اگراس کی مرضی کے خلاف پراپرٹی فروخت کی گئی تو وہ سب کو عدالت لے جائے گا ۔ ایسے میں اصل مالک کے پاس منہ مانگی قیمت دیکر جعلی دستاویزات خریدنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہتا ۔ میاں آفتاب کے مطابق گروہ نے پورے ملک میں جعلی عدالتی فیصلے بنا رکھے ہیں۔ سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود اس گروہ کے خلاف فیصلہ نہیں ہوسکا ،
ایف آر درج کرانے کی کوشش بھی کی لیکن شنوائی نہیں ہوئی ، جعل سازی کے اس سکینڈل میں نیا موڑ اس وقت آیا جب سعید احمد باری نامی شہری نے ہمت دکھائی اور اصلی عدالت میں زنجیر عدل ہلائی ، لیکن سعید باری کو بھی اپنی تین ہزار آٹھ سو کنال اراضی کے حوالے سے فیصلہ جعلی ثابت کرنے میں چار سال لگ گئے ۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ معزز سول جج نے تصدیق کی کہ 1968 کے عدالتی فیصلہ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ، اسی بنیاد پر سعید باری کو زمین مل گئی لیکن جعلی فیصلے سے متعلق تحقیقات کا کوئی حکم جاری ہوا نہ جعل سازوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، ملزم ارشد تھا تو بہت ذہین لیکن وہ بھی کئی غلطیاں کر ہی گیا ۔ انیس سو باسٹھ کا عدالتی فیصلہ بناتے ہوئے جعلساز ارشد یہ بھول گیا کہ اس وقت اس کی عمر بارہ سال تھی ۔
اسی طرح انیس سو باسٹھ سے انیس سو بہتر کے درمیان ظاہر کیے گئے جعلی فیصلوں میں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ ان فیصلوں کا اندراج ایل ڈی اے کے ریکارڈ میں بھی کرایا جائے ۔ جعلساز یہ بھول گئے کہ ایل ڈی اے کا ادارہ بنا ہی انیس سو پچھتر میں تھا ۔ ارشد چوھدری کا ایک جھوٹ ایسے بھی پکڑا گیا کہ ایک سول جج سلمان نبی کے جج بننے سے دو ماہ پہلے ہی کا اُن کا دستخط شدہ فیصلہ بھی تیار کر لیا ۔ جعل سازوں نے تمام فیصلوں پر مدعی اور مخالف کے نام پتے کراچی یا کویت کے درج کئے ۔ عدالتوں کے ساتھ ساتھ جعل سازی کے مرتکب وکلا کیخلاف شکایات سننے کے فورم پنجاب بار کونسل کے خصوصی ٹربیونل کے پاس بھی کوئی شکایت پہنچی نہ ہی خبر ۔ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ ، ججوں کی کمی اور وکلا کی ہڑتالوں کے باعث ان فرضی عدالتی فیصلوں کے خلاف بھی اصل مالکان کو اپنا حق حاصل کرنے میں بے شمار مشکلات درپیش ہیں ۔ جعلی عدالتی فیصلے بنانے والا گروہ بے نقاب تو ہو چکا لیکن اسے قانون کے شکنجے اور کٹہرےمیں لانے کے لئے بہت سے اداروں کو اقدامات کرنا ہوں گے ۔