قومی اسمبلی میں پھر ہنگامہ ، خورشید شاہ اور ایاز صادق میں تلخ کلامی

Published On 09 Jun 2017 03:57 PM 

ضیا ء الحق کیساتھ تصویر کے تذکرے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں ہنگامہ آرائی ، ارکان پارلیمنٹ کا تقدس اولین ترجیح ہونی چاہیئے ، خورشید شاہ

اسلام آباد (دنیا نیوز ) قومی اسمبلی میں آج بھی کارروائی ہنگامہ خیز رہی ، اپوزیشن لیڈر اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی ، ضیاء الحق کے ساتھ تصویر کا تذکرہ کرنے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ نور اعوان کی وزیر اعلیٰ پنجاب اور صدر مملکت کے ساتھ بھی گروپ فوٹو موجود ہیں ، کسی کا فوٹو ضیاء الحق کے ساتھ بھی ہے ۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے شیخ رشید کے واقعہ پر وضاحت پیش کر دی ۔ سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ نریندر مودی وزیر اعظم سے سامنے ملتے ہیں یا چھپ کر ہمیں کچھ پتہ نہیں ، وزیر اعظم کو مودی سے ملاقات میں کشمیریوں کی بات کرنی چاہئے تھی نہ کہ آپ کی فیملی ٹھیک ہے کا پوچھتے ۔

خورشید شاہ نے کہا کہ یہ کیابات ہوئی کہ آپ اپنےفیملی کی خیریت اور صحت کی بات کر رہےہیں ، خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ جمہوری حکومتیں عوام کے ووٹ سے آتی ہیں ، ریاست کو چلانے کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے ، خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ کے تابع ہوتی ہے ، پاکستان جن حالات میں آج کھڑا ہے وہ آمریت کے فیصلوں کی وجہ سے ہے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آج ہم خوش فہمی میں تھے کہ انتقال اقتدار کر کے جمہوریت کو مضبوط کیا ، ارکان پارلیمنٹ کا تقدس اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ سب سے پہلے دیکھا جائے کہ کل غیر متعلقہ شخص کو پارلیمنٹ لیکر کون آیا ، پاس ڈپٹی سپیکر کے دستخط سے جاری کیا گیا ، غیر متعلقہ شخص کو تھوڑی دیر بعد چھوڑ دیا گیا ، خورشید شاہ نے نور اعوان کی وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کے ساتھ تصاویر ایوان میں پیش کر دیں جس پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شیم شیم کے نعرے لگائے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ نور اعوان کی تصویر نہال ہاشمی کے ساتھ بھی جس نے کہا تھا ہم زمین تنگ کر دیں گے ۔

خورشید شاہ نے کہا کہ نور اعوان کی وزیر اعلیٰ پنجاب اور صدر مملکت کے ساتھ بھی گروپ فوٹو موجود ہیں ، کسی کا فوٹو ضیاء الحق کے ساتھ بھی ہے ۔ خورشید شاہ کے الفاظ پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی ۔ سپیکر نے عابد شیر علی کو خاموش رہنے کی ہدایت کی تاہم عابد شیر علی نے سپیکر کے منع کرنے کے باوجود اپوزیشن پر تنقید جاری رکھی ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ کل پارلیمنٹ میں ایک واقعہ پیش آیا ، ایوان کے محافظ کو قصائی نہیں بننا چاہئے ، جس پر سپیکر نے خورشید شاہ سے استفسار کیا کہ آپ نے کیا چیئر کو قصائی کہا ہے؟خورشید شاہ نے کہا کہ انہوں نے کہا آج کل یہ لفظ عام ہے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جب عابد شیر علی کے ساتھ مشرف دور میں زیادتی ہوئی تھی ہم یہاں کھڑے تھے ۔ عابد شیر علی کے والد کے ساتھ بھی جب زیادتی ہوئی تو ہم کھڑے تھے ۔ عابد شیر علی نے کہا کہ انہوں نے ہمیں کلاشنکوف کیس میں ساہیوال جیل میں رکھا ، یہ کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔

اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ عابد شیر علی کے والد کیوں جیل گئے تھے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آپ ریاست کے ذریعے رکن پارلیمنٹ کو بے عزت کرواتے ہیں ، پاناما کیا کرپشن نہیں ہے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ میں زیادتی کی گئی ، جمشید دستی کو جیل میں ڈال دیا گیا ، کیا سپیکر سے اجازت لی گئی ، ہمیں پتہ ہے آپ کتنے پہلوان ہیں ۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ شیخ رشید کو روکنے والے شخص کے خلاف کل ہی ایف آئی آردرج ہوگئی تھیں، اسپیکر نے اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ اور وزرا کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔خورشید شاہ نے کہا کہ مجھے کوئی ڈکٹیٹ نہ کرے اور نہ ہی بھاشن دے۔ملک کا پیسہ لوٹا گیا ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کو چلنے دیں ، اگر نہیں تو جے آئی ٹی ختم کریں اور یہاں آ جائیں ، میں ان کی طاقت اور بڑھکوں کو جانتا ہوں ، نواز شریف اور شہباز شریف کو کوئی لینے ائیرپورٹ نہیں پہنچا تھا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ کہتےہیں کہ ہم بجلی چور ہیں ہمیں بجلی نہیں دیں گے،ہم بھی یہ کہہ دیں کہ ہم پنجاب کو بجلی نہیں دیں گےتو کیا کروگے،

خورشید شاہ نے کہا کہ شیرکمزور کو کھا جاتا ہے ، طاقتوروں کو نہیں کھاتا، خدارا فیڈریشن کو تقسیم نہ کریں ، سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ جمشید دستی کو کل رات گرفتار کیا گیا،پولیس کو رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی،جمشید دستی کی گرفتاری کی وجہ سے مجھے مطلع کردیا گیا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر نے سپیکر سے جمشید دستی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ایاز صادق نے کہا کہ مجھے جب درخواست دی جائے گی تو پروڈکشن آرڈر جاری کردوں گا ، ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی کی ایوان میں شیخ رشید کے واقعہ پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان کا ہر رکن میرے لئے برابری کی حیثیت رکھتا ہے،اپوزیشن لیڈر نے الزام لگایا کہ واقعہ کے بعد شخص کو پاس جاری کیا گیا، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ میں حلف اٹھا کرکہتا ہوں ایسی کوئی بات نہیں ہے،اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو میں استعفی دینے کو تیار ہوں،یہ بات درست ہے کہ نوراعوان کو پاس میرے چیمبر سے جاری کیا گیا، ڈپٹی سپیکرنے کہا کہ اگر ارکان چاہیں تو جس دوست کی سفارش پر کارڈ جاری کیا گیا وہ بھی بتانے کو تیارہوں، وزیرمملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ شیخ رشید سے جھگڑنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا تھا،کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے،تصاویر کو وجہ بنا کر تنقید نامناسب ہے، ہم یہاں سے باہرنکلتے ہیں تو لوگ ہمارے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں،اسپیکر نے قصائی کا لفظ حذف کردیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔