وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے، وزیر اعظم فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دیں، وزیر اعظم نے عدالت کو غلط معلومات فراہم کیں، جعلی دستاویزات پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی: عدالت کا متخصر فیصلہ
اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں متفقہ طور پر نا اہل قرار دے دیا، وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ عدالت نے وزیر اعظم کو فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ نے کا حکم بھی دیا، وزیر اعظم نے عدالت کو غلط معلومات فراہم کیں، جعلی دستاویزات پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
سپریم کورٹ روم نمبر ون میں 5 رکنی لارجر بینچ کی طرف سے ساڑھے 11 بجے سنائے جانے والے فیصلے کا اعلان تاخیر سے کیا گیا۔ تاخیر پر لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معذرت کی۔ عدالت عظمی کے پانچوں معزز ججوں نے متفقہ طور پر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔ مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے، عدالت نے نواز شریف کو فوری عہدہ چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ نواز شریف اور بچوں کیخلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے جےآئی ٹی اور ایف آئی اے کے مواد کومدنظر رکھا جائے۔ وزیراعظم کے خلاف ہل میٹل، عزیزیہ مل کاریفرنس اور لندن فلیٹس پربھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نااہل قرار دیے گئے افراد کی نا اہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔ مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے عدالت کو غلط معلومات فراہم کیں، مزید یہ کہ نواز شریف 2013 الیکشن میں درست اثاثے نہ پیش کر سکے، عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ جعلی دستاویزات پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔
واضح رہے کہ 3 اپریل 2016 کو پاناما پیپرز کا معاملہ صحافیو ں کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے ) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام شامل تھے۔ ڈیٹا کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کئی آف شورکمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا، اس حوالے سے وزیر اعظم نوازشریف نے دوبار قوم سے خطاب کیا اور ایک بار پارلیمنٹ میں بھی خطاب کیا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تحقیقات کیلئے ٹی اوآرز بنانے کیلئے کوشش کرتی رہیں لیکن حکومت کا اصرار تھا کہ احتساب کا عمل سب سے شروع ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ صرف وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا پہلے احتساب ہونا چاہیے۔
بعدازاں اس حوالے سے عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جما لی کی سربراہی میں پہلی مر تبہ یکم نومبر 2016 کو پاناما کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا، کچھ روز سماعت کے بعد سابق چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کی وجہ سے یہ بینچ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کر نے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججو ں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرارنہ دیتے ہوئے نا اہل قرار دیا۔
تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ اس میں نیب، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے شامل تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈٖار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کو طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار جبکہ حسن نواز کو 3 بارطلب کیا تھا۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کر کے 10جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو پیش کی تھی۔ جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کے اعتراضات 17 جولائی سے سنے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔