پنجاب میں منصوبے مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوتے الیکشن میں نقصان ہو تا:ایک رائے وزارت اعلیٰ کے امیدوار اتنی تیزی سے آئے کہ ہاتھ پاؤں پھول گئے :لیگی ذرائع نوازشریف محاذآرائی کا ارادہ رکھتے ہیں جسکے لئے شہباز شریف موزوں نہیں :بی بی سی
اسلام آباد ( روزنامہ دنیا ) نواز شریف نے صحافیوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ اب شہباز شریف بطور چیف منسٹر پنجاب کام کرتے رہیں گے گو کہ ابھی باضابطہ اعلان باقی ہے لیکن سابق وزیراعظم نے بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف فی الحال پنجاب ہی میں رہیں گے اور نواز شریف کی خالی ہونیوالی سیٹ این اے 120 سے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے ۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے فوراً بعد مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس نے شہباز شریف کو ان کی جگہ وزیراعظم بنانے کی منظوری دی تھی تاہم ان کے قومی اسمبلی کا رکن بننے تک یہ ذمہ داری عارضی طور پر شاہد خاقان عباسی کو سونپنے کا فیصلہ ہوا تھا ۔ تاہم اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لی ہے اور شہباز شریف اب وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں رہے ۔
ان دو ہفتوں میں ایسا کیا ہوا کہ حکمران جماعت اتنا اہم فیصلہ اتنی تیزی سے بدلنے پر مجبور ہوگئی؟ ۔ بی بی سی کے مطابق جو عوامل شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لیے فوری نا اہلی کا باعث بنے ان میں سے چند یہ ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے اگر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تو پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبے انتخابات سے پہلے مکمل نہیں ہو پائیں گے ، شہباز شریف کو آج کل ان کے مصاحب شہباز سپیڈ کے نام سے پکارتے ہیں اور سنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ سب اچھا لگتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انہیں یہ لقب ایک چینی شخصیت نے دیا تھا جو صوبہ پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار سے بہت متاثر ہوئے تھے ۔ ایک رائے تھی کہ پنجاب میں ترقیاتی منصوبے مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوتے جس سے الیکشن میں نقصان ہوتا ۔ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنتے ہی مسلم لیگ ن پنجاب میں ایسی کھینچا تانی شروع ہوئی کہ جس کی توقع شاید نواز شریف حتیٰ کہ شہباز شریف کو بھی نہیں تھی ۔
وزارت اعلیٰ کے متعدد امیدوار اپنی اپنی لابیز کے ساتھ اتنی تیزی سے سامنے آئے کہ خود شریف خاندان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ ایک سینئر مسلم لیگی کے بقول ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کئی برسوں سے پنجاب کابینہ میں ایک ساتھ کام کرنے والے لیگی کارکن اچانک متحارب گروہوں کے نمائندے بن گئے تھے ۔ یہ صورتحال ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کے خیال میں پارٹی مفاد میں ہر گز نہیں تھی اور اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری تھا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سربراہی کے امیدوار نہ صرف پارٹی بلکہ شریف خاندان کے اندر بھی موجود تھے اور اگر خود نہیں تھے تو ان کے اپنے اپنے امیدوار ضرور تھے ۔ لیگی ذرائع کے مطابق ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف اہم سیاسی معاملات پر دو مختلف کیمپوں میں دکھائی دیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے امیدوار کے انتخاب کے دوران ایسا کئی بار محسوس کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ مریم صفدر اپنے کسی معتمد کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی خواہشمند تھیں جبکہ حمزہ کیمپ یعنی شہباز شریف کے صاحبزادے کا انتخاب کوئی اور تھا اور شریف خاندان کے یہ دونوں چشم و چراغ اپنے اپنے امیدوار کے لیے بھرپور لابنگ شروع کر چکے تھے ۔
بی بی سی کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف چودھری نثار علی اور شہباز شریف کے مشوروں کے برعکس محاذ آرائی کی سیاست کا رخ اختیار کر رہے ہیں ۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ چودھری نثار کے لاکھ سمجھانے کے باوجود نواز شریف محاذ آرائی کی سیاست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ سینے میں دفن مبینہ رازوں سے پردے اٹھانے کی باتیں کرنا ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو پہلے سے تیار شدہ قرار دینا اور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے لاہور جانا، یہ سب اشارے ہیں کہ نواز شریف چودھری نثار کے مشوروں کے برعکس خاموشی سے گھر جانے والے نہیں ہیں ۔ ایسے میں جب وہ محاذ آرائی کے راستے پر چلنے پر بضد نظر آتے ہیں شہباز شریف ان کے وزیراعظم کے لیے موزوں ترین شخص نہیں ہیں ۔ شہباز شریف کے بارے میں اب یہ بات خاصی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ وہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی سیاست کے داعی ہیں اور نواز شریف کو بھی اسی طرز سیاست پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ایسے وقت میں کیا شہباز شریف کے لیے وزیراعظم بننے کا صحیح موقع ہے کہ جب نواز شریف بالکل وہ کرنے جا رہے ہیں جس سے شہباز شریف انہیں روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ فیصلہ کیوں ہوا ؟