تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار

Published On 15 Aug 2017 09:04 AM 

بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اپنی جوشیلی تقاریر سے برصغیر کی خواتین میں ایک نیا جوش و ولولہ پید اکیا

لاہور (روزنامہ دنیا ) پاکستان نے اپنا 70واں یوم آزادی منایا۔ہر بار کی طرح اس بار بھی قوم بھرپور جذبے سے یوم آزادی مناتی رہی ۔یہ سب تو قابل عزت بات ہے مگر کہیں نہ کہیں کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ یہ کمی تحریک آزادی میں حصہ لینے والی خواتین کے حوالے سے ہے جن کا ذکر نہ ہونے کے برابر کیا گیا حالانکہ خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں ۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں برصغیر کی مسلم خواتین نے لازوال کردار ادا کیا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ مسلمانان برصغیر کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرنے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھنے والی خواتین میں بیگم مولانا محمد علی جوہر(جو کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی پہلی خاتون تھیں)جو اپنے خاوند کی طرح بلند پائے کی مقررہ تھیں ۔ اپنی شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے برصغیر کی خواتین میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا ۔

بیگم نصرت عبداللہ ہارون آل انڈیا مسلم لیگ شعبہ خواتین کی صدرتھیں ۔ انہوں نے مسلم گرلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور ویمن نیشنل گارڈ جیسی تنظیموں کی بنیاد رکھی تھی ۔ بیگم شائستہ اکرم اللہ نے بنگال میں تحریک پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے دن رات محنت کی ۔ انہوں نے اپنی کوششوں کی بدولت بنگال کی بہت سی خواتین کو عملی سیاست میں متعارف کروایا۔ بیگم جہاں آراشاہنواز مسلم لیگ کونسل کی رکن تھیں انہوں نے لاہوراور پنجاب کے دوردراز علاقوں میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بنیادی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں خضر حیات کی وزارت اعلیٰ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ بیگم حضرت محل زوجہ واجد علی کا نام زبان پر آتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے ۔ یہ جنگ آزادی کی اولین سر گرم عمل خاتون رہنما تھیں جب برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کرکے کلکتہ بھیج دیا اس وقت حضرت محل نے زمام حکومت سنبھال لی اور وہ ایک نئے اوتار میں سامنے آئیں ۔ انہوں نے محل میں بیٹھ کر پالیسیاں ہی نہیں بنائیں بلکہ جنگ کے میدان میں اتر کر اپنے جوہر بھی دکھائے اور وہ اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کے سبب جدوجہد آزادی میں ایک عظیم قائد بن کر ابھریں .

بی اماں والدہ علی برادران ہندوستان کی تحریک ا ٓزادی میں شریک رہیں۔ 1918ء کے آل انڈیا کے مسلم لیگ کے اجلاس میں بی اماں کی تقریر نے سامعین کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔اس وقت ان کے دونوں بیٹے جیل میں تھے۔اس دوران ہی اماں نے تحریک خلافت کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا اور اس تحریک کو جلا بخشی ان کا نعرہ تھا:بولی محمد علی کی اماں کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دو۔ زلیخا بیگم زوجہ مولانا آزاد باحوصلہ خاتون تھیں۔تمام مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنے شوہر کا دست و بازو بنی رہیں اور انھیں خانگی مسائل سے ہمیشہ بے فکر رکھا۔جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انھیں نے مہاتما گاندھی کو لکھا تھا کہ ’’میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے۔اگر ملک وقوم سے محبت کے لیے یہ سزا ہے تو اسکو انصاف نہیں کہا جائے گا۔ یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی.ان کے علاوہ بیگم مدوٹ ،بیگم سلمٰی تصدق حسین، بیگم شاہ دین کا کردار بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

تحریک پاکستان میں یوں تو اور بھی متعدد قدآور شخصیات قائداعظمؒ کے ہم رکاب تھیں اور وہ سب قائداعظمؒ کی بے پناہ عزت واحترام کرتی تھیں۔مگر جو عقیدت محترم فاطمہ جناح کو تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔آپ کو قائداعظمؒ سے جس قدر لگاؤ تھا شاید ہی کسی بہن کو اپنے بھائی اور کسی کارکن کو اپنے لیڈر سے ہو گا۔آپ نے جہاں سیاسی میدان میںقائداعظمؒ کا ساتھ دیا وہیں دانا بہن بن کر نجی زندگی کو بھی خوشگوار بنائے رکھا۔1938ء میں جب فاطمہ جناح نے سیاست میں قدم رکھا اس وقت سے لے کرقیام پاکستان تک کی نجی اور سیاسی زندگی برصغیر کی آزادی کی تحریک میں زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔حضرت قائداعظمؒ کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔قوم نے آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو مادرملت کا خطاب دیا۔1943ء میں خواتین نیشنل گارڈ کی تشکیل ہوئی جس میں پانچ ہزار سے زائد خواتین نے شرکت کی۔اس جلسے میں حضرت قائداعظم ؒنے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا مسلمان خواتین کو سپاہیوں کی طرح کام کرنا ہو گا تب کہیں جا کر ہم پاکستان حاصل کر سکیں گے۔آج خو اتین کو ہر شعبے میں مل کر کام کرنا ہوگا تب کہیں جا کر ہم وہ پاکستان حاصل کر سکیں گے جس کا خواب اقبالؒ نے دیکھا تھا اور جس کی تعمیر قائد نے کی تھی۔