پنجاب پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنان کے درمیان میں منہاج القرآن کے باہر تصادم میں 2 عورتوں سمیت 14 افراد ہلاک جبکہ 90 سے زئدافراد شدید زخمی ہوئے۔
لاہور: (دنیا نیوز) 17 جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا، پنجاب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے درمیان میں ادارہ منہاج القرآن کے باہر تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں پولیس کی فائرنگ سے عوامی تحریک کے 2 عورتوں سمیت 14 افراد ہلاک اور 90 سے زئدافراد شدید زخمی ہوئے۔
11 گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب پولیس کی تجاوزات ہٹانے والی نفری نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں جامعہ منہاج القران کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود رکاوٹیں ہٹانے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا۔ سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں مورخہ 21 جون کو وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ سے استعفی لے لیا۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ جس کے احکامات لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امتیاز علی خواجہ نے جاری کئے، جنہوں نے نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا تھا۔
19 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو جوڈیشل تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہو کر بحث میں الجھے رہے۔ اس روز آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
12 جولائی کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی کو سنگین نتائج کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو اس سانحہ کا براہ راست ملزم قرار دیا گیا، رپورٹ کا کچھ حصہ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں ذکر بھی کیا۔
جوڈیشل کمیشن رپورٹ کامران شاہد نے حاصل کی، ویڈیو دیکھیں: