میرے سامنے کیس آفس کی غلطی سے لگ گیا، پاناما کیس میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کی استدعا کی گئی تھی، لگتا ہے دفتر نے میرا پاناما کا فیصلہ نہیں پڑھا: جسٹس آصف سعید کھوسہ
اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق نیب کی اپیل سننے سے معذرت کر لی۔ انہوں نے کہا پاناما فیصلے میں اس معاملے پر تفیصلی رائے دے چکا ہوں، دفتر نے غلطی سے کیس لگا دیا، نئے بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔
تفصیلات کے مطابق حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کیلئے نیب کی اپیل کی سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا اور کہا پاناما کیس فیصلے میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق 14 پیرا گراف لکھے۔ لگتا ہے دفتر نے فیصلہ نہیں پڑھا۔ نیب کے وکیل نے استدعا کی کہ اپیل آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کرنے کی سفارش کر دی جائے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بینچ بنانا اور اپیل سماعت کیلئے مقرر کرنا چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ 20 اپریل کے پاناما کیس فیصلے میں نیب کو اسحاق ڈار کی حد تک ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا اور یہاں تک لکھا کہ اسحاق ڈار کا اقبالی بیان مسترد ہونے کے بعد انکی ملزم کی حیثیت بحال ہوگئی ہے۔ اتنا کچھ لکھے جانے کے بعد دفتر کو یہ کیس میرے سامنے نہیں لگانا چاہئے تھا۔
واضح رہے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حدیببہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کر دیا تھا۔ نیب نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ریفرنس دوبارہ کھولنے کی اجازت طلب کر رکھی ہے۔ نیب نے پاناما کیس میں پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر اپیل دائر کی تھی۔
خیال رہے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔ حدیبیہ ریفرنس مشرف دور میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔