قومی اسمبلی: پیپلز پارٹی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کر دیا

Published On 21 Nov 2017 06:05 PM 

نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا، اپوزیشن آئینی ترمیم لانے کیلئے ڈٹ گئی، قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری، حکومت کے نمبر پورے، نظریں ارکان کی حاضری پر، اپوزیشن کی کامیابی کے امکان معدوم ہونے لگے۔

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پیپلز پارٹی نے پریشانی کا شکار حکومت کو ایک اور آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے شرط رکھ دی ہے کہ حکومت ان کا الیکشن بل منظور کرے گی تو ان کی جماعت سینیٹ میں نئی حلقہ بندیوں کی ترمیم کی حمایت کرے گی۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل ایوان میں سید نوید قمر نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں کئی انفرادی ترامیم بھی ہوئی ہیں، جو شخص نااہل ہو چکا ہو وہ باہر بیٹھ کر پالیسی ڈکٹیٹ کر رہا ہو تو مناسب بات نہیں، الیکشن ایکٹ میں مزید ترامیم بھی ہوئی ہیں، نااہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ بن کر ایوان سے باہر سے پالسیی ڈکٹیٹ کرے، یہ مناسب نہیں، یہ آرٹیکل 62،63 کے منافی ہے۔

سید نوید قمر کے بل پیش کرنے کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے ان کے بل کو مسترد کر دیا جس کے بعد اپنے دھواں دار خطاب میں رہنماء پی ٹی آئی مخدوم شاہ محمود قریشی نے ان کے اختلاف کی شدید مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج اس ایوان نے سپریم کورٹ کے فل بینچ کی جانب سے نااہل قرار دیئے گئے شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کی اجازت دی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ پاکستان کے آئین کی روح کے منافی اقدام کر رہی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص اس ایوان کا رکن بننے کا اہل نہیں وہ اس ایوان سے باہر بیٹھ کر اس کی پالیسی پر اثرانداز ہو؟ سپریم کورٹ نے جس شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے وہ اس ایوان کو کیسے ڈکٹیٹ کر سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران نون لیگ والے اور اپوزیشن والے ایک دوسرے کے خلاف بھرپور نعرے بازی کرتے رہے۔

شاہ محمود قریشی کے بعد پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر عذرا نے بھی اپوزیشن کی جانب سے شق 203 کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوان لوگوں کی امیدیں اور توقعات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے، 4 سال سے ایوان میں حکومتی بینچ خالی تھے، آج ایک شخص کو بچانے کے لئے حکومتی حاضری پوری ہو گئی ہے۔

وزیر قانون زاہد حامد کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے بھرپو شور شرابا کیا۔ تاہم وزیر قانون نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1962ء کے پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے دوران ایوب خان کا دور تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں 1975ء میں اس شق کو نکال دیا گیا تھا، 1962ء کا سیاسی جماعتوں کا ایکٹ ایوب خان کے دور میں نافذ ہوا، اس کے سیکشن 5 کے تحت نااہل ہونے کے بعد کوئی شخص کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں رہ سکتا لیکن بھٹو کی جمہوری حکومت میں اس شق کو نکالا گیا تھا، 1975ء سے لے کر 2002ء تک یہ شق شامل رہی، اس وقت کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، صدر مشرف نے دوبارہ نااہلیت کی شق ڈالی، آج جو پارٹی اعتراض کر رہی ہے، اسی نے 1975ء میں یہ شق آئین سے نکالی تھی، کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، 17 نومبر 2014ء میں سب کمیٹی کی میٹنگ میں فاروق ایچ نائیک، سید نوید قمر، نعیمہ کشور، شازیہ مری، انوشہ رحمان شامل تھیں، ایک سال پہلے سب کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا لیکن آج یہ لوگ غلط کہہ رہے ہیں کہ بل ہم سے چھپایا گیا، سب کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ میں بھی پیش کی گئی لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، نوید قمر اور ڈاکٹر عارف علوی کو ای میل بھی کی گئی لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔

زاہد حامد کے بعد عارف علوی کھڑے ہوئے اور انہوں نے وزیر قانون کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ سید خورشید شاہ نکتہ اعتراض پر بولے، 2002ء سے 2007ء تک زاہد حامد اسی طرح مشرف کا دفاع کیا کرتے تھے جس طرح آج وہ بہتان تراشی کرتے ہوئے نواز شریف کا دفاع کر رہے ہیں، یہ ان کی جاب ہے میں انہیں برا نہیں کہتا۔

معمول کے اجلاسوں میں بالعموم غیرحاضر رہنے والے لیگی ارکان کی اکثریت کو اسمبلی میں موجود دیکھ کر اپوزیشن لیڈر بولے، آج ماشاء اللہ ہاؤس بھرا ہوا ہے، نظر نہ لگ جائے۔ خورشید شاہ نے سپیکر سردار ایاز صادق سے سوال کیا کہ دھرنے کیوجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، فیض آباد دھرنے کے حوالے سے حکومت کی کیا پالیسی ہے؟ جڑواں شہروں کے مکین یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے سوال کا جواب دینے کیلئے وزیر داخلہ موجود نہیں تھے۔ وزیر مملکت امور داخلہ نے جواب دیا مگر شاہ صاحب مطمئن نہ ہوئے اور چودھری احسن اقبال کو بلانے کا مطالبہ دہراتے رہے جس پر سپیکر نے وزیر داخلہ کو طلب کر لیا۔

شاہ محمود قریشی نے بھی سرکاری ارکان کی حاضری کو تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا، بولے آج کیا ہے جو سب ممبران کو اسمبلی میں کھینچ لایا ہے؟ 94 ارب روپے کے فنڈز کی گنگا بہا دی گئی ہے، ماشاء اللہ شق 203 کی کیا برکت ہے؟ کھانے کھلائے جا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ یہ ارکان صرف اپنی پارٹی اور لیڈرشپ کیوجہ سے یہاں آئے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کے بعد لیگی ایم این اے رجب بلوچ بولے ان کو نہ کسی نے اجلاس میں آنے سے روکا، نہ کسی نے زبردستی بلایا ہے، میڈیا پر غلط خبریں چل رہی ہیں جن کی تردید کرتا ہوں۔

قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد حسب ذیل ہے۔


پارلیمان میں  تو تو، میں میں  کی روایت آج بھی برقرار رہی۔ شیریں مزاری پھر دوسروں کی باری کے درمیان بولتی رہیں جس پر سپیکر نے ان کی سرزنش کر ڈلی، بولے کم از کم رولز تو پڑھ لیں، ہر معاملے میں مت بولیں۔

ادھر، قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کی بھرپور حاضری دیکھ کر نون لیگ والوں کی جان میں جان آ گئی اور وہ اپوزیشن پر طنز کے تیر برسانے لگے۔ مریم اورنگزیب کہنے لگیں مائنس نواز شریف کے خواہش مند لیگی رہنماؤں کا جوش دیکھ لیں، عمران خان پر نواز شریف کا خوف طاری ہے، وہ آئندہ بھی پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے۔