پہلے سے اطلاع کے باوجود پنجاب حکومت نے دھرنا روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے، دھرنے کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے، کل کوئی اور مسئلہ ہوگیا تو پھر شہر بند ہوجائیں گے، کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں: عدالت کے ریمارکس
اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس پرعدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جمعرات تک دوبارہ رپورٹ جمع کرائی جائیں۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ نے اسلام آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع اور داخلہ کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی گئیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت تمام حالات سے آگاہ تھی لیکن کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت اور احتجاج کرنے والے بنیادی نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، کیا یہ اسلام ہے، کیا اسلام میں کوئی ڈنڈا ہے، مسلمان جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، کیا لوگوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے، اختلافات ہوتے رہتے ہیں، کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں۔ کل کوئی اور آکر راستوں کو بند کردے گا۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا ایجنسیوں پراتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، ان کا کردار کہاں ہے، ایجنسیاں کیوں خاموش ہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے مگر مجھے کوئی مسکراتی شخصیت نظر نہیں آتی، گالی گلوچ کی زبان استعمال کی جاتی ہے کیا معاشرہ اس طرح چلتا ہے، کیا یہ چیز معاشرے کو تباہ نہیں کر رہی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کنٹینروں کا خرچہ بھی عوام دیتے ہیں، غلطی تو مجھ سے بھی ہو سکتی ہے مگر مجھے بضد تو نہیں ہونا چاہئے، سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں، ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم نظر نہیں آتی۔ انہوں نے ریکارکس دیتے ہوئے کہا اسلام امن سے پھیلا ڈنڈے سے نہیں، جس کو مرضی گالیاں دے دو سب تالیاں بجائیں گے، دین میں کوئی جبر نہیں، دشمنوں کے لئے کام بہت آسان ہوگیا، وہ ہمارے گھر میں آگ لگا رہے ہیں، جب ریاست ختم ہوجائےگی تو سڑکوں پر قتل ہونگے، ثواب کا میٹر ہمیشہ چلتا رہتا ہے، میڈیا والے اشتعال پھیلانے والوں کو کیوں بلاتے ہیں، ہم نے آرٹیکل 5 کو نظر انداز کردیا ہے، اگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں، غیر ملکی بھی پاکستانی قوانین کے پابند ہیں، مگر یہ لوگ کس قانون کے پابند ہیں۔
جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیا حکومت ماضی میں کی گئی کمٹمنٹ بھول گئی ہے، کیا حکومت کو یاد نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا تھا، کیا پنجاب میں کوئی دشمن موجود ہے؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو بتایا جائے کہ دھرنے کی وجہ سے کتنا خرچہ ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پر جو کچھ چل رہا ہے پیمرا نوٹس نہیں لے رہا، پھر مقدمات عدالت میں نہ لائیں سڑکوں پر لے جائیں، پیغام مل گیا ہے کہ چند لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے، میڈیا کو بھی ریٹننگ کیلئے مرچ مصالحہ چاہیے، دھرنے سے اسلام کی عظمت بڑھ نہیں رہی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پیمرا کے ماتحت نہیں آتا، دھرنے میں مسلح لوگ بھی موجود ہیں، ربیع الاول میں صورتحال خراب نہیں کرنا چاہتے، آج بھی دھرنا ختم ہونے سے متعلق پیشرفت کا امکان ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 169 لوگوں کو گرفتار کر کے 18 مقدمات درج کیے گئے، راستے بند ہونے سے ایک بچہ جاں بحق ہو گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک بچے کا وفات پا جانا معمولی بات نہیں ہے، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ بات دھرنے والوں کے دل میں سما جاتی تو وہ چلے جاتے اور توبہ کرتے، شرمندگی سے ہماری آنکھیں جھک گئی ہیں۔ میرا دل چکنا چور ہو گیا ہے، پیاسے کتے کے مرنے پر کون ذمہ دار ہوگا؟، کیا راستے بند ہونے سے وفات پانے والے بچے کے گھر کوئی حکومتی شخص گیا؟، ہم کتنا گر چکے ہیں، کل پولیس والے کو مسجد سے نکال کر مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا لاؤڈ سپیکر پر دھرنے والوں کو جانے کا کہا گیا؟، پارلیمان، عدلیہ اور علماء اپنا اپنا کام کریں، کیا ججز کو گالیاں دی گئی ہیں؟ ہماری طرف سے گالیاں دینے والوں کو شکریہ کہہ دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ایجنسیاں مر چکی ہیں؟ میڈیا کو پتہ ہے حکومت کو پتہ نہیں، نئی نسل کو اسلام کے بارے میں کیا بتائیں گے؟، کیا عدالت بند کر کے گھر چلے جائیں؟ عدالت اور عدل کا راستہ روکنا بھی گناہ ہے۔ کیا حکومت کے پاس سنجیدہ پلان آف ایکشن ہے؟، ہرجگہ ہر کسی کا اپنا قانون ہے، پھر آئین کو ختم کر دیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اس طرح تو چند لوگ شہر کو یرغمال بنا سکتے ہیں، کسی ریلی کو دھرنے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دھرنے کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے، یہ اخراجات خزانے سے کیوں جائیں؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کھلی عدالت میں نہیں چیمبر میں بتا سکتے ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر خفیہ بات ہے تو بند لفافے میں دے دیں، لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہو رہا ہے، اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے، ہم کوئی احکامات نہیں دیں گے، حکومت اپنا کام خود کرے، ہم قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، دھرنے والے لوگ کون ہیں، آئی ایس آئی رپورٹ تسلی بخش نہیں، رپورٹ میں گہرائی نہیں، صرف چار نام لکھ کر دے دیئے، لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے لیکن دھرنے والوں کو کوئی تکلیف نہیں۔ یہاں اسٹریٹجک اثاثے پڑے ہیں، ایجنسیاں ان کے کاروبار، بینک اکاؤنٹس اور ٹیکس سے متعلق بتائیں، دھرنے کے لیڈرز کہاں سے کھاتے پیتے ہیں؟ ان لوگوں کا کاروبار نہیں کیا یہ ملنگ فقیر ہیں؟ انہیں کون فیڈ کر رہا ہے، کیا یہ لوگ باہر سے آ گئے آئی ایس آئی کو معلوم نہیں؟ اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے دے گا، سنجیدگی دکھائیں، ایسی ہی رپورٹ انٹیلی جنس بیورو کی ہے، معاملے کا پتہ چلانا ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے آئی ایس آئی سے دھرنے سے متعلق دوبارہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران کو طلب کر لیا اور سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔