دہشتگردوں کو کیسے ٹھکانے لگایا؟

Published On 03 Dec 2017 08:43 PM 

جمعتہ المبارک عید میلاد النبی ﷺ کے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ تین برقع پوش ایک رکشے سے اترے، برقعے اتار کر اسلحہ لے کر پشاور یونیورسٹی کے سامنے زرعی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے۔

پشاور: (دنیا نیوز) اس عمارت میں محکمہ زراعت کے اہلکاروں اور طلبہ کو زراعت سے متعلق تربیت دی جاتی ہے۔ تعطیل کے باعث زیادہ تر لو گ اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ یہاں عام دنوں میں تین سے ساڑھے تین سو کے قریب طلبہ ہوتے ہیں لیکن چھٹی کی وجہ سے اس دن تعداد 90 کے قریب تھی۔

دہشتگردوں نے آتے ہی انسٹی ٹیوٹ کے چوکیدار کو نشانہ بنایا اور پھر اندر داخل ہو گئے۔ وہ پہلے ہاسٹل کی طرف گئے جہاں دو ملحقہ گھر تھے جن میں وارڈن اور اسسٹنٹ وارڈن کی فیملیز تھیں۔ ہاسٹل کے قریب ہی پی ایچ اے کا ایک ہاسٹل تھا جس میں 60 کے قریب طلبہ موجود تھے۔ دہشتگردوں کے اندر داخل ہوتے ہی ٹریفک سٹاف نے کنٹرول روم کو اطلاع دی جس پر نزدیک ترین تعینات پولیس کی ریپڈ رسپانس فورس کے 15 کمانڈوز جنہیں اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے خاص تربیت دی گئی ہوتی ہے، وہ 3 سے 4 منٹ کے اندر موقع پر پہنچ گئے۔

اطلاع ملنے کے بعد میں بھی 8 منٹ میں وہاں پر پہنچ گیا۔ یونیفارم پہننے پر وقت ضائع نہیں کیا بلکہ ٹراؤزر اور شرٹ کے ساتھ ہی اپنے ساتھیوں سے آ ملا۔ وہاں پہنچا تو اکا دکا گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ ہم نے طے کیا کہ دہشتگردوں کا دھیان فائرنگ کی طرف کر کے سب سے پہلے بچوں اور خواتین کو بچایا جائے۔ ہم نے عمارت کو گھیرے میں لیا اور عمارت کے اگلے حصے سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس طرح دہشتگرد بھی سامنے کی پوزیشن پر آ گئے۔ اس دوران ہم نے بکتر بند گاڑی سے ہاسٹل کے عقبی حصے میں وارڈن کے گھر کی دیوار کو توڑا اور تین خاندانوں کو بحفاظت نکال لیا ، جن میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔

ادھر دو منزلہ ہاسٹل کے نچلے فلور پر دہشتگرد طلبہ پر فائرنگ کر رہے تھے۔ ہم زخمی طلبہ کو بھی وہاں سے نکالتے رہے جس کے بعد فورسز نے پوری طرح سے ان کو نشانہ بنایا جس سے دو ہشتگرد ہلاک ہو گئے۔ ایک دہشتگرد جو دوسرے فلور سے فائرنگ کر رہا تھا اس کو بھی تاک کر نشانہ لگایا اور وہ بھی مارا گیا۔ اس کے بعد ہم اندر گئے تو وہاں پر دونوں دہشتگردوں کے درمیان چوکیدار کی لاش پڑی تھی جو طلبہ شہید ہو چکے تھے، ان کی بھی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ ہمارے بچے معصوم اور پڑھنے کیلئے تعلیمی اداروں میں آئے تھے۔ ان دہشتگردوں کے بزدلانہ حملوں کی وجہ سے ان بچوں کے والدین پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے فورسز کے اہلکار اپنی جان، خاندان اور اپنے بچوں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھے کیونکہ یہ بھی ہمارے ہی بچے تھے اور ان کو بچانا ہمارافرض تھا۔

اس حملے میں ایک چوکیدار اور 8 طلبہ شہید ہوئے۔ دہشتگردوں سے خود کش جیکٹس اور 20 ہینڈ گرنیڈ ملے۔ فورسز کے فوری ردعمل سے جہاں ایک طرف طلبہ کی شہادتیں کم ہوئیں تو وہیں پر دہشتگرد دوسرے ہاسٹل کی طرف بھی نہیں جا سکے۔ اس انسٹی ٹیوٹ پر حملے کے حوالے سے پیشگی اطلاع تو نہیں تھی تاہم پشاور جیسے شہر میں خطرے کے الرٹ جاری ہوتے رہتے ہیں جن کے مطابق حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ دہشتگردوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ طلبہ کو شہید کرنا تھا۔ ہماری حکمت عملی میں پہلے خواتین، بچوں اور طلبہ کو بچانا اور پھر اس کے بعد ان دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا جس کے مطابق ہم نے عمل کیا اور اس میں کامیاب ہوئے۔

خوش قسمتی سے فوری حرکت میں آنیوالی فورس کا کیمپ آفس قریب تھا۔ اس کے اہلکار کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر پہنچے اور جانی نقصان اتنا کم ہوا۔ شہر میں سیکیورٹی کے انتظامات بھی موثر تھے، اسی وجہ سے دہشتگرد برقع پہن کر آئے تا کہ کسی ناکے پر پکڑے نہ جا سکیں۔

سجاد خان: ایس ایس پی آپریشن پشاور