اسلام آباد: (دنیا نیوز) کپتان ناٹ آؤٹ، جہانگیر ترین آؤٹ، سپریم کورٹ نے نااہلی کیس پر بڑا فیصلہ سنا دیا۔ عمران خان آف شور کمپنی کے شیئر ہولڈر ہیں نہ ڈائریکٹر، نیازی سروسز ظاہر کرنا لازم نہیں تھا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نااہلی کی درخواست کر مسترد کر دیا ہے۔ عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی اپنی فیملی کیلئے خریدی جبکہ انھیں رقم ان کی سابق الیہ جمائما نے دی۔ عمران خان نے جمائما کی دی گئی رقم کاغذات میں بھی ظاہر کی تھی۔
عدالت کا کہنا تھا عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر تھے نہ ڈائریکٹر، کپتان پر نیازی سروسز کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنا لازم نہیں تھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کورٹ روم نمبر ون میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ لندن فلیٹس نیازی سروسز کا اثاثہ تھا لیکن عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر نہیں تھے۔ عمران خان لندن فلیٹ کے مالک تھے مگر ایمنسٹی سکیم میں انہوں نے یہ فلیٹ ظاہر کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات مسترد کرتے کہا کہ غیر ملکی فنڈنگ پر درخواستگزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ دیکھنے کا پابند ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی کرے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلہ سنانے سے قبل کہا کہ آنے میں تاخیر ہو گئی، اس پر معذرت چاہتا ہوں، ایک صفحے پر غلطی تھی جس کی وجہ سے 250 صفحے دوبارہ پڑھنے پڑے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 14 نومبر کو محفوظ فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ یہاں پڑھیں
دوسری جانب سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ انہوں نے اعتراف جرم کیا اور جرمانہ بھی ادا کیا، لہذا انہیں تاحیات نااہل کیا جاتا ہے۔ عدالت عالیہ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ قرضوں کے معاملے پر ہم مطمئن نہیں کہ جہانگیر ترین نے بینکوں سے قرضے معاف کرائے۔ جہانگیر ترین 29 دسمبر 2010ء سے 4 فروری 2013ء تک ایف پی ایم ایل کمپنی کے ڈائریکٹر و شیئرہولڈر رہے۔ اس عرصے کے دوران قرض معاف نہیں کرائے گئے۔ کمپنی ہائیڈ ہاؤس نامی 12 ایکٹر جائیداد شائینی ویو آف شور کمپنی کا اثاثہ تھی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس جائیداد کے اصل بینیفیشل مالک جہانگیر ترین تھے۔ اس جائیداد کی خریداری و تعمیر کے لیے 50 کروڑ روپے بیرون ملک بھیجے گئے۔ شائنی ویو یا ہائیڈ ہاؤس کسی ٹرسٹ کو منتقل نہیں کئے گئے۔ جہانگیر ترین نے اس اثاثے کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جہانگیر ترین اپنے عدالت میں دیئے گئے بیان میں واضح کہا کہ ان کا شائینی ویو اور ہائیڈ ہاؤس میں بینیفیشل انٹرسٹ نہیں ہے۔ 5 مئی 2011ء کی ٹرسٹ ڈیڈ ظاہر کرتی ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ تاحیات بینیفیشری ہیں۔ جہانگیر ترین نے اعلیٰ ترین عدالت میں کھلا جھوٹ بولا۔ ملک کی اتنی بڑی عدالت میں اس طرح جھوٹ بولنا ایک ایماندار آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ جہانگیر ترین آرٹیکل 62 ون ایف اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 99 کے تحت نااہل ہیں۔ جہانگیر ترین رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اپنی نشست فوری طور پر چھوڑ دیں۔
اس موقع پر عدالت کا کورٹ نمبر ایک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پی ٹی آئی رہنما چودھری سرور، فردوس عاشق اعوان، فواد چودھری، مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی، طلال چوھدری اور دانیال عزیز بھی عدالت میں موجود تھے۔ سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کی۔
حنیف عباسی کی درخواست
عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی ہنگامہ خیز سماعت ایک سال تک جاری رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے کپتان پر آف شور کمپنی چھپانے، تحریک انصاف کے لئے غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ جمع کرنے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرنے، بنی گالہ اراضی اہلیہ کے نام بے نامی خریدنے، ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے غیرقانونی فائدہ اٹھانے کے الزامات سامنے آئے۔
عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا
پاناما پیپرز لیکس پر عمران خان نے شریف فیملی کےاحتساب کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ن لیگ کے رہنما نے کپتان کو بھی اسی عدالت کے کٹہرے میں کھینچ لیا۔ حنیف عباسی نے دو نومبر 2016ء کو عمران خان کی آرٹیکل 62 ون ایف پر نا اہلی کیلئے درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ نے 7 نومبر کو پہلی سماعت پرعمران خان سے جواب طلب کیا۔ کپتان نے 23 نومبر کو پیش تحریری جواب میں بنی گالہ اراضی خود خریدنے کا مؤقف اپنایا۔ 23 نومبر 2016 کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث بنچ ٹوٹ گیا اور کیس پانچ ماہ تک زیرالتوا رہا۔
سماعت کا دوبارہ آغاز
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تین مئی 2017ء سے مقدمے کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔ 18 مئی کو عمران خان نے دوسرا بیان حلفی جمع کرایا جس میں جمائما سے قرضہ لینے کا بتایا اور اپنے نمائندہ راشد خان کا بیان بھی پیش کیا۔ ن لیگ نے راشد خان کے بیان کو عمران خان کا قطری خط قراردیا۔ عدالت نے لندن فلیٹ خریداری کی منی ٹریل پر سوالات کئے تو عمران خان نے 22 جولائی کو منی ٹریل کے نامکمل ہونے کا اعتراف کر لیا۔ چیف جسٹس نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملہ پر ریمارکس دیئے کہ دوسروں کی دیانت داری پر بات کرنے والے کے احتساب میں کوئی حرج نہیں۔
وکیل عمران خان
عمران خان کے وکیل نے دوران سماعت واشگاف الفاظ میں کہا کہ 2003ء میں لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد آف شور کمپنی کی کوئی قانونی حیثت نہیں تھی۔ عدالت نے جمائما خان کو قرض کی واپسی کا ریکارڈ طلب کیا تو انکشاف ہوا کہ لندن فلیٹ کی فروخت کے بعد بھی کمپنی اکاؤنٹ میں لاکھوں پاؤنڈ اور یورو کی ٹرانزیکشن ہوتی رہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کمپنی کی قانونی حیثت نہیں تھی تو اتنی بڑی رقمیں کیسے آتی جاتی رہیں۔ وکیل حنیف عباسی نے نشاندہی کی کہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کی خریداری پر مؤقف 3 بار بدلا، انہیں پاناما فیصلے میں طے معیار کی رو سے، جھوٹ بولنے اور کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا جائے۔
اختتامی دلائل
وکیل عمران خان نے اختتامی دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل سے گوشواروں میں غلطی ہو سکتی ہےغلط بیانی نہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کیا پانامہ کیس میں تنخواہ کا نہ بتانا غلطی تھی یا غلط بیانی؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 14 نومبر کو آخری سماعت میں کہا عدالت کو سچ کی تلاش ہے، دستیاب مواد سے فیصلہ کریں گے کہ عمران خان یا حنیف عباسی میں سے کس نے سچ بولا۔