مارچ 2016 سے 20 جنوری 2017 تک ایک خط کے حصول کیلئے جدوجہد رائیگاں گئی، میری، امریکی وکلا اور پاکستانی قوم کی التجائیں حکمرانوں کے سخت دل کو موم نہ کر سکیں۔
لاہور: ( ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جدوجہد میں ایک اور سال گزرنے کو ہے۔2017 کے آغاز میں جب امریکی صدر اوبامہ 20 جنوری کو اپنی آئینی مدت پوری کر کے سبکدوش ہو رہے تھے۔ اس وقت عافیہ کے امریکی وکلاسٹیون ڈائونز اور کیتھی مینلے پاکستانی صدر ممنون حسین یا وزیراعظم نواز شریف کے ایک خط کے منتظر تھے، وکلا کو پوری امید تھی کہ اس خط کی مدد سے عافیہ کو صدارتی معافی کے ذریعے رہائی مل جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ مارچ 2016 سے 20 جنوری 2017 تک ایک خط کے حصول کیلئے جدوجہد رائیگاں گئی۔ میری، امریکی وکلا اور پاکستانی قوم کی التجائیں حکمرانوں کے سخت دل کو موم نہ کر سکیں۔ اس دوران کالم نویسوں اور صحافی برادری نے عوام کو حقیقت حال سے متعلق آگاہی دی جس پر ملک کے طول وعرض سے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ ہونے لگا، ان 9 مہینوں کے دوران عوام، عافیہ موومنٹ کے رضا کاروں اور مختلف سیاسی و دینی جماعتوں نے عافیہ کی حمایت میں جدوجہد کا سلسلہ شروع کیا۔
مطالبہ زور پکڑنے کے بعد بالواسطہ اور بلاواسطہ پیغامات آنے کا سلسلہ شروع ہوا کہ جلد بارٹر سسٹم کے تحت عافیہ کو واپس لانے کی خوشخبری قوم کو دی جائیگی، ملک و قوم کیلئے کچھ اور دن صبر کریں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے یہ بات عام کی گئی اورآج 2017 ختم ہوا چاہتا ہے، چند دنوں بعد ہم ایک نئے سال میں ہونگے۔ کیا یہ 2017 کا المیہ نہیں کہ عافیہ کی رہائی، وطن واپسی کا ایک اور موقع حکمرانوں اور ارباب اختیار نے گنوا دیا؟، سابق وزیر اعظم نوازشریف نے بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح عافیہ کی والدہ اور بیٹی مریم سے وعدہ کیا تھا کہ 2013 میں برسر اقتدار آنے کے فوراَ بعد عافیہ کو 100 دن کے اندر وطن واپس لائیں گے، لیکن ابھی تک وعدہ ایفا نہ ہو سکا، ابھی بھی میاں صاحب کے پاس اسے پورا کرنے کاغالباً آخری موقع ہے۔ اس سلسلے میں ہم زنجیر عدل بھی ہلا چکے۔
گزشتہ اڑھائی سالوں میں ٹیلی فون پر چند منٹ کی بات چیت کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا۔ مارچ میں پتا چلا کہ ہیوسٹن امریکہ میں پاکستانی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے جیل میں ملاقات کی، ان کے مطابق ان کی صحت بہت خراب ہو گئی ہے، جب انہیں چادر لئے لیٹے ہوئے دیکھا تو ایسا محسوس ہوا، جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ پر پڑا ہو، بے حس وبے حرکت، حکام نے بتایا کہ یہی عافیہ ہے۔ تشویشناک حالت کے بعد اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بار درخواست کی کہ عافیہ سے ملاقات کرائی جائے۔ ضعیف اور باہمت والدہ اپنی بیٹی، دونوں بچے احمد و مریم اپنی ماں اور بہن ملاقات کیلئے ساڑھے 14 سال سے ترس رہی ہے۔ حکومت وقت اور ارباب اختیار سے استدعا ہے کہ ہماری عافیہ سے ملاقات کرانے کا سرکاری طور پر بندوبست کیا جائے، جس کے تمام اخراجات ہم نجی طور پر برداشت کرینگے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عافیہ کے اہلخانہ اور وکلا کو اعتماد میں لے کر کسی مناسب موقع پر امریکی صدر ٹرمپ سے عافیہ کی رہائی کیلئے بات چیت کریں تا کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف ان قوموں اور تہذیبوں نے ترقی کی جن کی لیڈرشپ غیرت مند تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں عظیم جنرل محمد بن قاسم ،طارق بن زیاد، معتصم باللہ اور سلطان محمد فاتح نے بیٹیوں کی حفاظت کیلئے تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کیا۔