اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف نا اہلی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت، وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا آج دلائل نہیں دے سکوں گا، نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہوں، جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی کو بد دیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوگا؟۔ عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا توبہ کا تصور بھی موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نا اہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کر ہوگی، کیا سرعام برا بھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ اندرونی طور پر بھی آزاد ہے، توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے، پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا، عوام کے سامنے بددیانتی کا اعتراف کرنا ہوگا، کوئی کہتا ہے میں نے کچھ نہیں کیا میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
وکیل کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پرکھا جائے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی ایک ٹرم کے لیے ہوگی، نا اہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بد دیانتی بھی رہے گی۔ وکیل کامران مرتضی نے کہا ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا یہی جائزہ لینا ہے ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ طے یہ کرنا ہے نا اہلی کی مدت کیا ہوگی، 18 ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا، کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی ہے۔ وکیل درخواستگزار نے کہا پارلیمنٹ نے تبدیلی اس لیے نہیں کی کیونکہ مذہبی عناصر کا خوف تھا، آپ دیکھ لیں فیض آباد میں کیا ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کا مطلب ہے پارلیمنٹ ڈر گئی تھی؟، پارلیمنٹ سپریم ہے۔