صوبے کی تقسیم کا نعرہ نیا نہیں ، ہرکوشش ناکام

Last Updated On 11 April,2018 08:29 am

صرف 11 ملکوں کی آبادی پنجاب سے زیادہ ، رقبے میں بلو چستان 172 ممالک سے بڑا ہے

لاہور: (دنیا ریسرچ سیل ) پاکستان ایک وفاق ہے جس کا مطلب ہے کہ وفاق سے پہلے ہی وفاقی اکائیوں کا وجود تھا۔ تاہم مختلف وجوہات جن میں آبادی، وسیع علاقہ ، گورننس وغیرہ شامل ہیں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکائیوں یا صوبوں کی تعداد میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ بھارت 1947 میں 9 صوبوں یا ریاستوں پر مشتمل تھا، آج 29 ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔

گورننس کے 2بنیادی مقاصد ہیں:قوانین اور پالیسیاں نافذ کرنا، بنیادی سہولتیں اور دیگر سروسز فراہم کرنا۔ دونوں مقاصد کے حصول میں 2 عوامل انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، ایک زیر انتظام علاقے کی وسعت ، دوسرا آبادی؛ علاقے کے بہت وسیع یا آبادی کے زیادہ ہونے سے سروسز کی فراہمی کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیامیں رقبے کے لحاظ سے 8 بڑے ملکوں میں سات وفاقی ریاستیں ہیں۔

چھوٹے یونٹس کے قیام، انہیں اختیارات اور خودمختاری دینے کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو حکومت تک رسائی ملے، ان میں شراکت کا زیادہ سے زیادہ احساس پیدا ہو۔ پنجاب کا جہاں تک تعلق ہے تو دنیا کے صرف 11 ملکوں کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح رقبے کے لحاظ سے بلوچستان دنیا کے 172 ملکوں سے بڑا ہے، ان میں برطانیہ اور اٹلی جیسے ملک بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب پاکستان کی کل آبادی کا 56 فیصد ہے، قومی اسمبلی میں پنجاب کے ارکان کی اکثریت کو دائمی حیثیت حاصل ہے ۔ اترپردیش جوکہ آباد ی کے لحاظ سے سب سے بڑی بھارتی ریاست ہے ، قومی آبادی میں اس کا تناسب 16.49 فیصد ہے ۔ بھارتی وفاق کو ایک اکائی کی زیادہ آبادی سے کوئی خطرہ نہیں، مگر پاکستان میں چھوٹے صوبوں کی پنجاب کے غلبہ کی شکایت عام ہے، وفاقی حکومت کی ہر زیادتی کا ملبہ پنجاب پر ڈال دیا جاتا ہے، ایسی شکایات بھارت یا امریکہ میں سننے کو نہیں ملتیں۔

پنجاب کی تقسیم سے متعلق اب تک دو مطالبات سامنے آئے ہیں، ایک بہاولپور صوبے کی بحالی، دوسرا ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژنوں اور میانوالی، بھکر، خوشاب، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع پر مشتمل سرائیکی صوبے کا قیام۔ پنجاب اسمبلی میں اس علاقے کے منتخب ارکان کی تعداد 35 فیصد ہے، ان کی جانب سے علیحدہ صوبے کے مطالبے کی وجہ اسمبلی اکثریتی ارکان سے شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ کا مطالبہ 1987 سے ہو رہا ہے، اس میں تیزی 2010 میں آئی، مظاہروں میں سات ہلاکتیں ہوئی، تاہم صوبائی حکومت نے جلد معاملہ ٹھنڈا کر دیا۔ سندھ میں کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ ایک عرصہ سے ہو رہا ہے، جس کی سندھی سختی سے مخالفت کرتے آئے ہیں، اس کے خلاف حالیہ برسوں میں پیپلزپارٹی کا ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ بھی سامنے آیا ہے ۔

کراچی صوبے کے مطالبے پر اردو بولنے والوں نے محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ اندرون سندھ آباد اردو بولنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بلوچستان کو پشتون اور بلوچ بنیاد پر تقسیم کرنے کی بات کئی مرتبہ ہوئی، علیحدگی کی تحریک کے باعث پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی کوششیں کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ 2012میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی قرارداد پیش کی، اس قرارداد کا مقصد سندھ کی تقسیم کی راہ ہموار کرنا تھا، اس لئے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ آٹھ ماہ بعد پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کیلئے پارلیمانی کمیشن قائم کیا مگر بات آگے نہ بڑھی۔

 

Advertisement