لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان کی جانب سے ترکی پر امریکی پابندیوں کی مخالفت کے اعلان کے بعد متوقع وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ترکی کو درپیش سنگین اقتصادی بحران پر ترک صدر طیب اردوان کو بھجوایا جانے والا جذبہ خیر سگالی کا پیغام یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان امریکی عزائم کو بھانپ چکا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی بھی ملک کی جانب سے دوسرے ملک پر یکطرفہ پابندیوں کا اقدام امن و استحکام اور مسائل کو سنجیدہ بنانے کا باعث بنتا ہے اور امریکہ صدر طیب اردوان اور ترکی کو اقتصادی پابندیوں کے شکنجے میں کس کر ترکوں کی خوداری اور خود مختاری پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔
لہٰذا دیکھنا ہے کیا ترکی پر امریکی ہتھکنڈے کارگر ہو سکیں گے؟ امریکہ اور ترکی کے نئے تنازع میں پاکستان کیلئے سبق کیا ہے؟ عمران خان اس صورتحال میں کہاں تک کھڑے ہو سکیں گے اور پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ آتا ہے تو کیاپاکستان ترکی کے ساتھ کھڑا رہے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو امریکہ، ترکی تنازع میں سامنے آ رہے ہیں اور اس حوالہ سے پاکستان کا کردار کیا ہو گا؟ ترکی کی معیشت پر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ اور ٹرمپ انتظامیہ کی پابندیوں پر پاکستان میں اقتدار میں آنے والی متوقع حکومت کے سربراہ عمران خان نے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے برادر ملک ترکی کی معیشت پر پابندیوں کے دباؤ کو مسترد کر دیا ہے اور ترک صدر طیب اردوان کو بھر پور تعاون اور ساتھ کھڑے رہنے کا یقین دلایا ہے۔
یہ بہت مثبت اور احسن پیش رفت ہے۔ لازمی طور پر پاکستان کو اس صورتحال میں اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر آزمائش میں بوجھ بٹانا چاہئے تھا اور تاریخی رشتے بھی دونوں قوموں میں اس نوعیت کے رہے ہیں کہ جب بھی ترک مسلمانوں پر آزمائش پڑی برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت بچاؤ تحریک چلائی اور ہندوستان چھوڑ دو کے نام سے عثمانی خلافت کا جھنڈا اٹھائے رکھا۔ ترک قوم اور پاکستانی قوم میں بہت سے مشترکات ہیں۔ ترکی نے بھی بڑی بحرانی کیفیت میں عالمی استعمار سے آزادی حاصل کی، پاکستان بھی برطانوی سامراج کے خلاف سیاسی بغاوت کا نتیجہ تھا۔ دونوں ملک ہمیشہ اور ابتدا سے ہی سول ملٹری غیر متوازن صورتحال کا شکار رہے، جمہوری حکومتوں کا تختہ فوج کے ہاتھوں الٹتا رہا اور مارشل لا لگتے رہے۔ دونوں ملک آغاز سے ہی اقتصادی ترقی اور تعاون کی تنظیم میں ایک رشتہ میں جڑے رہے۔ خراب معیشت اور سیاسی عدم استحکام دونوں ملکوں میں رہا اور سب سے بڑھ کر دونوں ملک امریکہ سے تعلق کی ایک جیسی تاریخ رکھتے ہیں۔
حیران کن حد تک پاکستان اور ترکی کے امریکہ سے تعلقات کی خرابی بھی ہمسایہ ملکوں میں امریکی مداخلت کے باعث شروع ہو گی، امریکہ بہادر کی پاکستانی فوج سے لڑائی افغانستان میں دہشت گردی کے معاملات پر ہوئی اور ترکی سے ناراضی کا سبب شام کا تنازع بنا اور امریکہ ترکی میں ناکام بغاوت کے پیچھے بھی کھڑا نظر آیا جہاں سے حالات نے دونوں ممالک کو اپنے تاریخی تعلقات کو خیر باد کہنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کے مقابلے میں ترکی معاشی طور پر ایک بہتر پوزیشن پر کھڑا تھا اور ترک قوم نے فوری ردعمل اختیار کرتے ہوئے شام کے تنازع پر امریکہ مخالف پالیسی اپنائی اور دفاعی معاملات اور تعاون کیلئے امریکی حریف روس کا رخ کیا۔
یہ معاملات حیران کن طور پر امریکہ اور ترکی کے درمیان ہوئے جو آپس میں ‘‘نیٹو اتحادی’’ بھی ہیں۔ اب ترکی کیلئے اصل چیلنج سیاسی استحکام اور معیشت کے میدان میں ملنے والی کامیابیاں سنبھال کر رکھنا ہیں۔ وگرنہ صورتحال بہت خراب ہو سکتی ہے۔ ترکی کو جدید اسلامی دنیا میں ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ترک لیڈر طیب اردوان کو ایک ہیرو سیاستدان سمجھا جاتا ہے اب بھی ان سے امید یہی ہے کہ وہ بحرانی کیفیت میں اپنے ملک اور قوم کو سنبھال لیں گے پاکستانی قوم، حکمران اور خصوصاً مسلح افواج کیلئے اس میں چھپا پیغام یہی ہے کہ امریکہ دشمنی تو ہے ہی خطرناک مگر اس کی دوستی کی تاب لانا بھی بہت مشکل ہے۔
پاکستان اور ترکی دونوں کے امریکہ سے تعلقات اس پر گواہ ہیں۔ دونوں قومیں خصوصاً خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں، معاشی کفایت شعار اختیار کریں، فوجی تنازعات کیلئے مغرب کی جانب دیکھنے کے بجائے اسے خود نمٹانے کی کوشش کریں تو اصلاح احوال ضرور ہو گی۔ امریکہ نے یہی رویہ ایران اور شام میں بھی روا رکھا ہوا ہے۔
اس لئے اب مسلم ممالک ہنگامی طور پر مل بیٹھیں اپنی پراکسی لڑائیاں شیعہ اور سنی ممالک میں لڑنا بند کریں وگرنہ پہلے ایران، شام اور پھر اب ترکی کے بعد نہ نجانے کس کی باری آ جائے۔ پاکستان بھی گزشتہ دس سالوں سے امریکہ کے ساتھ سرد مہری اور تلخ تعلقات کا شکار ہے لہٰذا پاکستان ہی پہل کرے ایک نئی قیادت اور ایک نئی امید تبدیلی کے ساتھ تا کہ اسلامی ممالک ایک وحدت کی لڑی میں پرو جائیں۔
عمران خان اپنے ابتدائی دوروں میں سعودی عرب، ایران اور ترکی کو سرفہرست رکھیں اور اسلامی بلاک کو چین کی جانب کھینچ کر لائیں اور وسیع تر معاشی ایجنڈے کا حصہ بنائیں تا کہ امریکی حلیفوں کے متوازی ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل ہو سکے۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ 70 کی دہائی میں یہ کام بھٹو، شاہ فیصل اور دیگر رہنماؤں نے شروع کیا تھا مگر یہ سب ماضی کا حصہ بن گئے۔
پاکستان ایک فوجی اور ایٹمی قوت ہے، ترکی زبردست معاشی قوت ہے، عرب ممالک تیل کا ہتھیار استعمال کرنے پر راضی ہو جائیں تو مسلمان ایک باعزت قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر دوبارہ سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔ اب بھی اگر مسلم قیادتیں خواب غفلت میں سوئی رہیں تو پھر ‘‘ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات’’