زلفی بخاری کی تقرری پر تنازع

Last Updated On 19 September,2018 08:39 am

لاہور: (روزنامہ دنیا ) وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست برطانیہ میں کاروباری شخصیت ذلفی بخاری کو اپنا معاون برائے اوورسیز پاکستانی مقرر کردیا ہے، کیبنٹ ڈویژن نے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ ذلفی بخاری کی تقرری کے بعد سیاسی و صحافتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ نئے پاکستان میں ایک ایسے شخص کو اہم سرکاری عہدے سے نوازا گیا ہے جس کی برطانوی شہریت ہے اور اس کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی ہے اب بھی ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے۔

اس حوالے سے ممتاز قانون دان وسیم سجاد نے پروگرام ’’دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان کے آئین میں وزیر اعظم، وزرا، سینیٹرز، ارکان اسمبلی اور مشیروں کے بارے میں کچھ شرائط لکھی گئی ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دہری شہریت نہیں رکھ سکتے لیکن بہت سے دیگر عہدوں کے بارے میں آئیں خاموش ہے۔ ذلفی بخاری کو وزیر اعظم کا خصوصی معاون مقرر کیا گیا ہے۔ اس عہدے کا آئین میں ذکر نہیں ہے سوائے آرٹیکل 260 میں کہ یہ عہدہ سروس آف پاکستان کے اندر تصور نہیں کیا جائے گا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خصوصی معاون بنتا ہے تو سرکاری عہدے والی پابندی اس پر عائد نہیں ہوتی۔ قانون کے مطابق اس عہدے کے لئے دہری شہریت کے حامل شخص کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن اس وقت پاکستان میں جو ماحول ہے اس بات کا امکان ہے کہ کوئی یہ معاملہ عدالت میں لے جائے اور عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس کے اخلاقی پہلو کا تعلق ہے تو اس کا سیاسی ردعمل ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ کرنا تحریک انصاف کی قیادت کا کام ہے کہ وہ کن اشخاص کو ان عہدوں پر لانا چاہتی ہے۔

وسیم سجاد نے کہا کہ ہمارے پاس ڈاکٹر بابر اعوان کی ایک نظیر موجود ہے۔ جب ان کے خلاف نیب ریفرنس دائر ہواتو ان کو کہا گیا کہ وہ اپناعہدہ چھوڑ دیں مگر ذلفی بخاری کے خلاف نیب میں انکوائری تو ہورہی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا اگر ان کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں آتا تو ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، رہا یہ سوال کہ عمران خان ایسے معاملات میں خود تنقید کرتے رہے ہیں یہ اس کا سیاسی پہلو ہے یقیناً اس کا رد عمل آئے گا، تنقید بھی ہوگی اور انہیں اس کا جواب دینا پڑے گا کہ اس شخص میں کیا ایسی بات تھی کہ ان کا اس عہدے پر تقرر کیا گیا ہے اگر ان کی کارکردگی اچھی ہے تو شاید یہ بات نکل جائے اور اگر ان کی کارکردگی درست نہ ہوئی تو تنقید زیادہ بڑھے گی اور وزیر اعظم پر دبائو زیادہ ہوجائے گا۔