مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں شہید

Last Updated On 02 November,2018 10:44 pm

راولپنڈی: (دنیا نیوز) مولانا سمیع الحق کی موت سینے پر لگنے والے چاقو سے ہوئی، حملے کی اطلاع گھر پر کام کرنے والے ملازم نے دی۔

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔مولانا سمیع الحق پر چاقو سے حملے کی اطلاع ان کے گھریلو ملازم نے دی اور پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ میں گھر سے باہر سامان لینے گیا ہوا تھا واپس آیا تو مولانا سمیع الحق کے سینے پر چاقو لگایا ہوا تھا، مولانا سمیع الحق کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ وہ دم توڑ گئے۔

دنیا نیوز ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کے گارڈ گھر کے باہر موجود تھے لیکن وہ لاعلم ہیں کے کون اندر آیا اور کس نے حملہ کیا؟ پولیس نے ملازمین کو تفتیش کیلئے حراست میں لے لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وقوعہ کے وقت مولانا سمیع الحق گھر پر ڈرائیور اور ایک ملازم کے ساتھ رہ رہے تھے، ان کا ملازم پانی لینے گھر سے باہر گیا تھا۔

ملازم گھر واپس آیا تو مولانا سمیع الحق خون میں لت پت باتھ روم میں گرے ہوئے تھے، مولانا سمیع الحق کے ملازم نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی ایمبولنس سروس کو اطلاع دی۔

دنیا نیوز ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کے سینے، گردن، منہ اور کندھے پر تیز دھار آلے سے گھائو کے نشان ہیں۔

مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے اپنے والد پر قاتلانہ حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آور نے گھر میں گھس کر چاقو سے حملہ کیا۔

مولانا حامد الحق کا دنیا نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ والد عصر کی نماز کے بعد اپنے کمرےمیں آرام کر رہے تھے، ان ڈرائیور اور گن مین باہر گئے ہوئے تھے، دونوں واپس آئے تو وہ شہید ہو چکے تھے۔

دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الحمان نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سفاکانہ اقدام ہے، اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، اللہ ان سفاکوں کو اپنی قوت سے سزا دے۔

انہوں نے حکومت سے بھی اپیل کی کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

مولانا سمیع الحق جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ تھے، وہ 18 دسمبر 1937ء مین اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ مولانا سمیع الحق 2 بار سینیٹر رہ چکے ہیں۔ 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹر رہے۔

مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین تھے، مولانا جامع حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر جید عالم جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت دیگر شخصیات نے مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب نے انسپکٹر جنرل پولیس سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے افسوسناک واقعہ کی جلد از جلد تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کو جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے اور ملزمان کی جلد گرفتاری یقینی بنائی جائے۔

آئی جی پنجاب نے مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے آر پی او راولپنڈی سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور پولیس کو فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

آئی جی پنجاب نے ہدایت کی ہے کہ امن وامان کو ہر صورت یقینی بنائیں، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دیں۔


حملہ آور کون تھا؟ اس کے مقاصد کیا تھے؟ کیا قاتلانہ حملہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا؟ ملک کی اہم سیاسی اور مذہبی شخصیت کے قتل کے پس پشت عوامل کیا ہو سکتے ہیں؟ تفتیش کار تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

فرانزک ایکسپرٹ اور انسداد دہشت گردی فورس نے جائے وقوع سے فنگر پرنٹس اور شواہد اکھٹے کر لیے ہیں۔ انسداد دہشتگردی فورس کو مولانا سمیع الحق کے کمرے اور بستر سے خون کے نمونے ملے ہیں جنہیں کراس میچ کے لئے فرانزک لے جائے گا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی مددلی جائے گی جس سے گھر سے باہر جانے اور آنے والوں کے وقت کا پتا چلے گا، گھر میں موجود ملازموں کے بیان ریکارڈ کیے گئے ہیں، انسداد دہشت گردی فورس نے ابتدائی رپورٹ مرتب کر لی ہے۔