جنگی قیدیوں کی رہائی سے متعلق جنیوا کنونشن کیا ہے؟

Last Updated On 28 February,2019 06:17 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا نیوز ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور نریندر مودی کے درمیان آج رات رابطے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے کچھ دنوں سے جاری بھارتی جارحیت اور دراندازی کا تحمل سے جواب دینے کی پالیسی اپنائی۔ وزیراعظم عمران خان سمیت تمام پاکستانی حکام نے اںڈیا کو بار بار باور کرایا کہ ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا ہے جو صرف امن ہے، ہم بھارت کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن ہم پر کسی بھی قسم کا حملہ ہوا تو سوچا نہیں جائے گا بلکہ فوری جواب دیا جائے گا۔

26 فروری کو بالاکوٹ میں بھارتی طیاروں کی دراندازی کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج نے عوام سے کیے گئے اپنے وعدے کو نبھایا اور بھارتی جارحیت کا جواب ان کے دو طیارے گرا کر دیا۔ اس کامیاب کارروائی میں انڈیا کا ایک پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن بھی گرفتار ہوا جسے تمام سہولتیں پہنچائی جا رہی ہیں۔

آج عمران خان نے ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن کو کل مورخہ یکم مارچ کو رہا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بات پھر بھارتی حکام پر واضح کر دیا ہے کہ ہمارے اس عمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم بھارت کو دہشتگردی سمیت تمام معاملات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سنہ 1999 کی کارگل کی لڑائی کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ ایک ملک کے کسی فوجی کو دوسرے ملک نے حراست میں لیا ہے۔
اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان آئے روز قیدیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ قیدی اکثر ایسے غیر فوجی افراد، دیہاتی اور مچھیرے ہوتے ہیں جو مویشیوں یا مچھلیوں کی تلاش میں غلطی سے دوسرے ملک کی حدود میں پہنچ جاتے ہیں۔

 جنیوا کنونشن کیا ہے؟

جنگی قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین میں سب سے معتبر دستاویز جینوا میں طے پانے والا ایک معاہدہ ہے جسے عرف عام میں ’جنیوا کنونشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس دستاویز پر پہلی مرتبہ سنہ 1929 میں اتفاق کیا گیا تھا، تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 1949 میں پہلے معاہدے میں خاصی تبدیلیاں کی گئیں اور اس میں جنگی قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے کئی شقوں کا اضافہ کیا گیا اور اس معاہدے کو تیسرا جنیوا معاہدہ یا ’تھرڈ جنیوا کنونشن‘ کہا جاتا ہے۔اب تک دنیا کے 149 فریق اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں، جن میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔

 جنیوا کنونشن ہر رکن ملک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی جنگی قیدی سے تفتیش کے دوران ہر قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد یا کسی بھی قسم کے دباؤ سے پرہیز کرے گا، اور جس قدر جلد ممکن ہو گا، قیدی کو جنگ کے مقام سے دُور لے جائے گا۔ کنونشن کی شق نمبر49 تا 57 کا تعلق ایسے قیدیوں سے ہے جنھیں جلد اپنے ملک کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ ایسے قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام یا مشقت بھی نہیں لی جا سکتی جو ان کے فوجی عہدے کے شایان شان نہ ہو۔

یعنی نہ صرف ان کے عہدے، عمر اور جنس کا لحاظ کرنا ضروری ہے بلکہ ان سے کوئی ایسا کام بھی نہیں کرایا جا سکتا ہے جو مضر صحت یا خطرناک ہو سکتا ہے۔


 

Advertisement