پیپلز پارٹی مہنگائی، بے روز گاری کو استعمال کرنا چاہتی ہے

Last Updated On 05 April,2019 08:46 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پیپلز پارٹی لیڈر شپ کے بگڑے ہوئے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ کسی بڑی جدوجہد کی تیاری میں ہے اور سمجھ رہی ہے کہ ملک کو در پیش سلگتے مسائل خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری کو ہتھیار بنا کر عوام کے اندر منتخب حکومت کے خلاف تحریک برپا کی جائے اور اسے دفاعی محاذ پر لایا جائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے بلاول نے اپنی تقریر میں عمران خان کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کی اور مخصوص انداز میں اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے دکھائی دئیے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر پیپلز پارٹی کی قیادت بڑی جدوجہد کی بات کیونکر کر رہی ہے۔ کیا عوام کے اندر منتخب حکومت کے خلاف تحریک موجود ہے ؟ کیا ملکی حالات اسلام آباد کی طرف کسی سیاسی مارچ کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اسلام آباد کی طرف مارچ میں کیا پیپلز پارٹی اکیلے ہی جائے گی یا دیگر اپوزیشن جماعتوں کا اعتماد اسے حاصل ہوگا ؟ جہاں تک پیپلز پارٹی کی جانب سے اسلام آباد کی طرف مارچ اور اس حوالے سے عوام کے اندر پیدا شدہ تحریک کا سوال ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے پیپلز پارٹی عوام کے اندر مہنگائی، بے روزگاری بڑھتی ہوئی غربت کو جواز بنا کر اسے حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ایسا کر سکے گی ؟ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی کی تنقید اور تحفظات اپنی جگہ لیکن حقائق یہی ہیں۔

عوام مہنگائی کے ہاتھوں بدحال ہیں، 7 ماہ میں مہنگائی کا 5 سال کی بلند ترین سطح تک پہنچنا اور جولائی 2018 سے مارچ 2019 تک مہنگائی کی شرح میں 6.7 فیصد اضافہ حکومت کیلئے حد درجہ تشویشناک مسئلہ ہوناچاہئے۔ اس ضمن میں وزیر خزانہ اسد عمر کی باتوں پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے جس میں وہ مسائل زدہ عوام کی مزید چیخیں نکلنے کی نوید دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی باتوں اور بیانات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے گویا حکومت کو احساس ہی نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں یہ کہہ کر سارا ملبہ پرانی حکومتوں پر گرایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی ابتری میں ماضی کی حکومتوں کا کردار ہوگا۔ لیکن مہنگائی کے رجحانات کی ذمہ دار حکومت وقت ہی کہلاتی ہے۔ مہنگائی ایسی دو دھاری تلوار ہے جس کی امیر، غریب کوئی بھی تاب نہیں لا سکتا۔ مہنگائی غریب کا عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہے۔ لاکھوں خاندانوں کو پہلے ہی دو وقت کی روٹی میسر نہیں لیکن حال ہی میں ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی، گیس، پٹرولیم کی قیمتوں میں لگنے والی آگ نے پورے ملک میں مایوسی اور تشویش کی لہر دوڑا رکھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے گرد احتساب کا شکنجہ تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کمال خوبصورتی سے حکومت کو دباؤ میں لانے کیلئے مہنگائی اور عوام کے سلگتے مسائل کو ٹارگٹ کرتے ہوئے میدان میں آنے کا عندیہ دیا ہے، گو کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کا کردار بھی اس حوالے سے اچھا نہیں۔ حکومتی ذمہ دار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ ہمارے ساتھ ہے، ہمیں کوئی خطرہ نہیں لیکن خود اپنی اصلیت ثابت کرنے اور مسائل پر ڈلیور نہ کرنے کے باعث سنجیدہ حلقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ فوج اور عدلیہ کبھی بھی ملک کو غیر مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ آئین پاکستان کے تحت وہ منتخب حکومت کے تابع سسٹم کو تحفظ دیتے ہیں لیکن جب عوام کے اندر رد عمل ہوگا اور حالات کا رخ منتخب حکومت کے خلاف شروع ہو کر احتجاج کی شکل اختیار کرتا ہے تو پھر ریاستی ادارے ریاست کے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ حکومت کو نہیں لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ عوام مسائل کی آگ میں جل رہے ہیں ان کے اندر حکومت کے حوالے سے مایوسی پیدا ہو رہی ہے اور جہاں تک اس امر کا سوال ہے تو کیا مسائل زدہ عوام ان کا ساتھ دیں گے تو یہ بات ابھی بہت حد تک قبل از وقت ہے۔

مسلم لیگ ن نے فی الحال پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے ان کی قیادت جیل میں بند ہے مگر جماعت کے اندر کوئی رد عمل محسوس نہیں ہو رہا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو ٹارگٹ کرنے والوں نے اپنے اگلے ہدف کی طرف پیش رفت شروع کی لیکن مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کی گریٹ قیادت نے اپنے خلاف قانون کا شکنجہ کستا محسوس کر کے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ طرز عمل اختیار کیا ہے اور فرضی طور پر انہیں اس کا سیاسی اور عوامی فائدہ مل رہا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی آئندہ چند ہفتوں میں اسلام آباد کارخ کرے گی البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسائل سے دو چار حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لایا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جنہیں متبادل قیادت کے طور پر سیاسی اور پارلیمانی محاذ پر بھرپور کردار ادا کرتے نظر آنا چاہئے تھا۔ مصلحتاً خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور محض اخباری بیانات اور ٹویٹس کا سہارا لیکر خود کو مطمئن کئے ہوئے ہیں لیکن سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کا کردار شہباز شریف کے پاس ہوگا تو پارلیمنٹ کے باہر پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کو بڑے سیاسی کردار کا حامل سمجھا جائے گا اور ملکی سیاست میں ہمیشہ سیاسی محاذ پر بھرپور اور زوردار کردار کے حامل شخص کو عوامی سطح پر پذیرائی ملتی ہے گو کہ بلاول بھٹو زرداری کو اس صورتحال میں خود اپنے والد کا سیاسی ملبہ بھی اٹھانا پڑے گا۔ کرپشن کے الزامات بھی ان کے خاندان کا پیچھا کریں گے ۔ گرفتاریوں کا عمل بھی ان کے کردار پر اثر انداز ہونے کیلئے جاری رہے گا۔ لیکن ان سب کے باوجود اگر بلاول بھٹو زرداری مسائل زدہ عوام کی آواز بننے میں کامیاب رہتے ہیں تو یقیناً اس سے پیپلز پارٹی کی ساکھ کی بحالی کے امکانات ہوں گے۔ اگر عوام کے اندر حکومت کے خلاف لاوا پھٹ پڑا تو ریاستی ادارے ریاست کا مفاد دیکھیں گے اور عوام کی طرح حکومت حالات کے رحم و کرم پر ہوگی۔