بھارت سبق سیکھنے کو تیار نہیں، اندرونی اتحاد ضروری

Last Updated On 08 April,2019 09:07 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) بھارت کی مودی سرکار جارحیت کے جواب میں اپنے دو لڑاکا طیاروں کے ملبے سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور علاقائی غلبہ کیلئے پاکستان کو نیچا دکھانے کے زعم میں مبتلا نظر آ رہی ہے، تاریخی حقیقت یہی ہے کہ جنگ میں پہل رسوائی، پسپائی اور جگ ہنسائی بن جاتی ہے اور پھر اس کیفیت سے نکلنے کیلئے ملک اور اس کی قیادتیں پے در پے حماقتیں کرتی نظر آتی ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آنے والے دنوں میں بھارت کی جانب سے ایک اور جارحیت کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 16 سے 20 اپریل کے دن اہم ہیں، ہمارے پاس معتبر انٹیلی جنس رپورٹیں ہیں اور بھارت پلوامہ جیسا ایک نیا ڈرامہ رچا کر پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے تا کہ عسکری کارروائی کا جواز پیدا کیا جا سکے، اس لئے دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں ؟ پاکستان کو انٹیلی جنس رپورٹوں کو کس حد تک سنجیدگی سے لینا چاہئے ؟ کیا دنیا 2 ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کی صورت میں خاموش تماشائی بنی رہے گی ؟ بھارت کا مسئلہ کیا ہے ؟ وہ جنگی جنون میں مبتلا کیوں ہے ؟ بھارت کے جارحانہ عزائم سے نمٹنے کیلئے اندرونی اتحاد اور معاشی حالات بہتر بنانا ہوں گے، بھارت کے جارحانہ عزائم سمجھنے کے لئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے مائنڈ سیٹ کو جاننا ضروری ہے کیونکہ یہ وہی شخص ہے جس کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں 2 ہزار مسلمان شہید کر دئیے گئے اور وہ اقتدار سے پہلے اور اقتدار میں آنے کے بعد انتہا پسندانہ مائنڈ سیٹ کا اظہار پاکستان کو سبق سکھانے کے نعرے لگا کر کرتا رہا، اس کی شہرت پاکستان اور اسلام دشمنی سے منسلک ہے، اپنے ان عزائم پر مبنی ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے اس نے پلوامہ واقعہ کو ہتھیار بنا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی اور رات کے اندھیرے میں بالاکوٹ کے علاقے میں بم برسائے لیکن اگلے ہی روز اس کے عزائم پر کاری ضرب اس وقت لگی جب پاکستانی فضائیہ نے اپنی حدود کی خلاف ورزی کے مرتکب بھارت کے 2 طیارے مار گرائے اور اپنی فضائی برتری ثابت کر دی۔

بھارتی عزائم اب بھی جارحانہ ہیں کیونکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تازہ انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر خطرے سے آگاہ کیا ہے، اس لئے تمام معاملے کو دونوں ملکوں کے عوام کو بھی انتہائی سنجیدہ لینا پڑے گا، دوسری طرف پاکستان کو جارحانہ اور موثر سفارتکاری کے ذریعے دنیا بھر کو بالخصوص سلامتی کونسل کے اداروں کو اپنا ہم نوا بنانا چاہئے اور ان قوتوں کو آگاہ کرنا چاہئے، جنہوں نے پہلے بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی یا عملاً دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے میں پسِ پردہ حقیقی کردار ادا کیا تھا، فروری میں دونوں ملک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے، بظاہر عالمی طاقتوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی، مگر جب پاکستانی رد عمل سامنے آیا اور 2 بھارتی جہاز گرا دئیے اور بھارتی پائلٹ زیر حراست آیا تو پھر دنیا خواب خرگوش سے جاگی اور اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان جارحیت کا بھرپور جواب دے گا، جس کے بعد دنیا کشیدگی ختم کرانے کیلئے آگے آئی تھی، بھارت میں سماجی اور سیاسی سطح پر پاکستان اور مسلم مخالف جذبات کا غلبہ ہے، چند دنوں میں لوک سبھا کے چناؤ ہو رہے ہیں، بھارت دہائیوں تک سیکولر معاشرہ بننے کی کوششوں کے بعد بھی ابھی تک پاکستان اور مسلم مخالف جذبات یا تعصب کا اسیر بنا ہوا ہے۔

بھارت میں خواہ کوئی بھی برسر اقتدار ہو اس کا سیاسی نعرہ پاکستان سے نفرت کے گرد گھومتا ہے، دونوں ملک چونکہ کئی بار بڑی جنگوں کی حالت تک پہنچ چکے ہیں اور اصل تنازع کشمیر ہے، بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ اور پاکستان اسے اپنی شہ رگ کہتا ہے اور بعض اوقات اسے تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا کہتا ہے تو وقتاً فوقتاً مقبوضہ کشمیر میں جاری غیر مسلح مگر سیاسی مزاحمت کے دوران پاکستان سے اٹھنے والی آوازوں اور رد عمل پر بھارت یکطرفہ اور جارحانہ اقدامات کرتا ہے اور بعض اوقات مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر اور سیاسی دہشت گردی سے رد عمل میں ہونیوالے تشدد کا کوئی واقعہ اسے جارحیت پر اکساتا ہے ،بھارت مذاکرات کے زمانے میں طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر اسے دہشت گردی قرار دے ڈالتا ہے اور اس کے ذمہ داروں کو پاکستان میں تلاش کرتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں خرابی شروع ہو جاتی ہے، اور اس کے نتائج سے فوجی نہیں تو کم از کم سفارتی تنازع پورے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور بھارت اپنی عوام کو مطمئن کرنے کیلئے پاکستان پر الزامات دھرتا ہے ، بھارت میں سنجیدہ طبقات اور خصوصاً اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کہ کشمیر پالیسی اور تشدد کے بڑھتے عمل پر مودی حکومت کو جوابدہ بنائیں، اس مسئلہ کا حل پاکستان کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا عمل ہے، جسے جتنا جلد ہو سکے بھارت شروع کرے اور 70 برسوں سے اس تنازع کو قابلِ قبول حل کی جانب بڑھائے، بھارت میں اس وقت سنجیدہ بحث کو اپوزیشن جماعتیں آگے بڑھا سکتی ہیں کہ کب تک اپنے داخلی تنازعات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنی ہے، کشمیریوں کے بھارت سے متنفر ہونے کی ہزار وجوہات ہیں مگر اس کا ذمہ دار اسلام آباد کے بجائے نئی دہلی کی طاقت کی پالیسی ہے ، خطے میں استحکام کیلئے بھارت میں امن پسند طبقات کو آگے بڑھ کر اس بحث کا آغاز کرنا ہے کہ بھارتی الیکشن میں نعرہ پاکستان مخالفت نہیں بلکہ داخلی مسائل اور کامیابیاں ہونی چاہئیں، اس طرز عمل سے دو طرفہ تصفیہ طلب مسائل حل ہوں گے۔