پنجاب میں کس کی حکمرانی؟

Last Updated On 16 April,2019 09:20 am

لاہور: ( محمد اعجاز میاں ) کسی بھی انتظامی ماڈل میں یونٹی آف کمانڈ بہت ضروری ہوتی ہے لیکن پنجاب میں طاقت کے 6 مراکز ہیں، پہلا وزیراعظم آفس خود صوبے کے حساس معاملات اور فائلوں کو دیکھ رہا ہے، وزیراعلیٰ بھی اپنی استطاعت کے مطابق پنجاب کو چلا رہے ہیں، گورنر پنجاب چودھری سرور کا بھی انتظامی امور اور سیاسی معاملات میں عمل دخل ہے۔ اس کے علاوہ جہانگیر ترین کا بھی پنجاب کے انتظامی اور معاشی منصوبہ بندی کے معاملات میں کافی اہم کردار ہے اور وزیراعظم بھی ان کی رائے کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے بعد علیم خان کا نام آتا ہے جب الیکشن ہوئے توا س وقت خیال تھا کہ وہ وزیراعلیٰ ہونگے۔ وزیراعلیٰ تو وہ نہ بن سکے مگر 90 شاہراہ قائداعظم پر اپنا دفتر بنایا۔ اگرچہ جیل میں ہونے کے با عث ان کی طاقت میں کمی آئی ہے مگر اس کے باوجود ان کا انتظامی معاملات اور پارٹی امور میں اثر و رسوخ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس کوئی انتظامی ماڈل ہے اور نہ ہی یونٹی آف کمانڈ ہے ہاں صرف کنفیوژن ہے جس کی وجہ سے لگ رہا ہے کہ معاملات قابو میں نہیں۔

وزیراعظم کیلئے تو سب سے اہم مسئلہ ملکی معیشت ہو نا چاہیے۔ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے لیکن وہ پنجاب کابینہ اجلاس میں بیٹھ رہے ہیں اور شنید ہے کہ ابھی جو تقرریاں اور تبادلے ہوئے ہیں وہ وزیراعظم کی مرضی سے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ ایک اہل وزیراعلیٰ لگائیں، اس کو ذمہ داری دیں کیونکہ اگر وزیراعلیٰ اہل نہیں ہوگا تو پھر یہ سب بد انتظامی ہے۔ اس حکومت نے آکر کوئی سرائیکی صوبہ تو نہیں بنایا مگر سرائیکی انتظامی سیٹ اپ بنایا ہے، اس کی وجہ یہی تھی کہ اس سے وزیراعلیٰ آسودہ رہیں گے کیونکہ چیف سیکرٹری بھی ملتان سے تھے، پھر جو ہوم سیکرٹری تھے وہ بھی سرائیکی علاقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بن سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افسران میں مکمل طور پر کنفیوژن ہے کہ کس کی بات سنی جائے، کس کی مانی جائے، ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی، اب فیصلہ سازی کس نے کرنی ہے ،پنجاب میں کوئی نہیں جانتا۔

لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آنے سے پہلے کوئی تیاری نہیں کی تھی، افسروں کی کوئی پروفائلنگ نہیں کی، ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کون سے افسر اہل اور غیر جانبدار ہیں، بلکہ جتنے بھی افسر لگے ہوئے ہیں، گورنر سٹیٹ بینک سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک۔ سب کی گزشتہ حکومت کیساتھ ہم آہنگی تھی جو غیر جانبدار افسر تھے ان کو نہ تو اچھی تعیناتی ملی اور نہ ہی پروموشن ہوئی۔ اسی وجہ سے وہ یاتو سائیڈلائن ہوگئے یا پھر پرائیویٹ سیکٹر میں چلے گئے، اب جو ان کے پاس افسران موجود ہیں ان کی پروفائلنگ کر کے ان افسران پر مشتمل اپنی ایک ٹیم بنانی ہوگی جو ان کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہیں۔ گزشتہ دور میں ذاتی وفاداری کو میرٹ پر ترجیح دی گئی اور انہیں افسروں کو پروموٹ کیا گیا اب جو باقی افسر بچے ہیں، نہ تو ان کی تربیت ہو سکی اور نہ پروموشن۔ اس لئے موجودہ بیوروکریسی کیساتھ ہی ان کو کام کرنا پڑے گا، جب یونٹی آف کمانڈ ہوگی تو اس کے ساتھ احتساب بھی ہوگا، جب آپ کسی کو ذمہ داری دینگے تو پھر اس سے نتائج بھی لیں گے اور اگر یونٹی آف کمانڈ نہیں ہوگی تو پھر انہوں نے ذمہ داری نہیں لینی۔

56 کمپنیوں کا جو سکینڈل آیا تھا، اہل ترین افسر ان کمپنیز میں تھے، ان تمام کے کیسز زیرالتوا ہیں جس کی وجہ سے ایک خوف و ہراس ہے، اب کوئی بھی افسر زیادہ فعال انداز میں عملدرآمد اور فیصلہ سازی کرتا نظر نہیں آرہا۔ اس سارے مسئلے کا حل یہی ہے کہ افسروں میں اعتماد کو بحال کرنا پڑے گا۔ ذاتی وفاداری سے نکل کر میرٹ پر فیصلے کرنے ہونگے۔ انہیں افسروں میں سے اہل اور غیر جانبدار افسروں کو ڈھونڈنا ہوگا اور ان کو ذمہ داری دے کر ان سے کام لینا ہوگا۔ افسروں میں خوف وہراس ہے، اس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔