بد قسمتی سے ہماری معیشت قرضوں کی معیشت بن چکی

Last Updated On 19 June,2019 09:01 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے گزشتہ دس سال کے دوران قائم حکومتوں کے دور میں لئے جانیوالے قرضوں، ان کے استعمال کی جانچ پڑتال اور تحقیقات کیلئے مجوزہ کمیشن کے چیئرمین کیلئے حسین اصغر کے نام کی حتمی منظوری دے دی گئی ہے۔ حسین اصغر جو قومی احتساب بیورو کے ڈپٹی چیئر مین کے طور پر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، وہ اب تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہونگے۔ جبکہ کمیشن کے اراکین کیلئے مختلف اداروں کے ذمہ داران کی نامزدگی ہوگی۔

حسین اصغر پیشہ وارانہ معاملات اور تحقیقات کے حوالے سے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔ انہوں نے اپنے ماضی میں حج سکینڈل اور خود پنجاب بینک میں سامنے آنے والے سکینڈل کی تحقیقات کر کے اپنی اہلیت اور قابلیت کا ثبوت فراہم کیا تھا لہٰذا آج کی صورتحال میں دیکھنا پڑے گا کہ تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت، اہمیت کیا ہے ؟ کیا وہ چھ ماہ کے اندر مذکورہ کمیشن کے مقاصد اور نتائج فراہم کر پائیں گے ؟ تحقیقاتی کمیشن کے قیام میں پارلیمنٹ سے رجوع کیونکر نہیں کیا گیا اور اپوزیشن جماعتیں اس تحقیقاتی کمیشن کا خیر مقدم کیونکر نہیں کر پا رہیں ؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی چند سالوں کو چھوڑ کر ملکی معیشت اور ترقیاتی امور کے حوالے سے بیرونی قرضوں کے سہاروں نے نہ تو ملکی معیشت کو مضبوط اور موثر بننے دیا اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کیلئے آنے والے فنڈز اس کی ضرورت کے مطابق ان منصوبوں پر خرچ ہو سکے۔ پاکستان پر قرضوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور قرضوں کے اس سلسلہ کے باعث ہمارے حکمران پاکستان کی آزادی و خود مختاری اور وقار کو اس طرح برقرار نہ رکھ سکے جو ایک آزاد، خود مختار اور با وقار ملک کیلئے لازم ہوتا ہے ۔ اور آج کی صورتحال میں جب حکومت کے معاملات اور خصوصاً معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جاتاہے تو کہا جا سکتا ہے کہ بد قسمتی سے ہماری معیشت قرضوں کی معیشت بن چکی ہے اور قرضوں کی فراہمی اور آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر نہ تو اسے چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کی منزل پر پہنچایا جا سکتا ہے۔

حکومت کی آمد کے بعد عوام کو کسی طرح کا کوئی بھی ریلیف نہ مل سکا اور وزیراعظم جب خود کو معاشی حوالے سے زچ ہوتا دیکھتے ہیں تو پھر ان کی نظر خود کو ملنے والی معیشت اور قرضوں پر پڑتی ہے اور وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جو کچھ ان کو ملا ہے وہ بھیانک اور پریشان کن ہے اور اس کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں ہیں، لہٰذا انہوں نے اپوزیشن کو دفاعی محاذ پر لانے کیلئے اس تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ، کمیشنوں کے قیام ، ان کے نتائج اور سفارشات کے حوالے سے اچھی نہیں۔ ان کمیشنوں سے ذمہ داران کی نشاندہی ہوئی مگر سفارشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ حالات کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ اب کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ صرف سیاستدان ہی ٹارگٹ نہیں ہونے چاہئیں بلکہ قرضوں کی لوٹ کھسوٹ میں بیورو کریسی اور خود مالیاتی اداروں کے ذمہ داران کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ورنہ مذکورہ کمیشن محض مخالفین کو پھانسنے، ان کے گرد قانون کا شکنجہ کسنے اور خود معاشی حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر کرنے کی ایک منظم کوشش قرار پائے گا اور یہ حکومت کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بنے گا۔ لہٰذا ملک کی موجودہ حکومت اور قیادت کو چاہئے کہ ماضی کی حکومتوں کے اللوں تللوں کی جانچ پڑتال اور قرضوں کے ضیاع کے تحقیقاتی عمل کی جانب پیش رفت کے ساتھ خود ان کی پالیسیوں پر گامزن نہ ہوں اور پاکستان کو قرضوں کی معیشت سے نجات دلانے کی فکر کریں اگر قرضوں سے نجات کا عزم رکھنے والے حکمران قرضوں کے حصول کو اپنی کامیابی قرار دیتے نظر آئیں گے تو پھر ماضی اور آج کے حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا اور تباہی و بربادی کے عمل سے نجات کے بجائے ہم ایک نئے معاشی بحران سے دو چار ہوں گے ، جس کا اب پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا اور موجودہ معاشی بحران ہماری بقا و سلامتی کیلئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔