مقبوضہ کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کا خاتمہ مہذب دنیا کیلئے چیلنج

Last Updated On 10 August,2019 09:41 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بھارتی عمل کے خلاف آنے والے اس بیان کو محض روایتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل نہ کی جائے اور یہ کہ کشمیر پر بھارتی پابندیوں پر تشویش کے اظہار کے ساتھ یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر پر حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہوگا۔ مذکورہ رد عمل اور مؤقف سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ محض روایتی رد عمل اور مؤقف ہے اگر واقعتاً اقوام متحدہ کو خود اپنی قراردادوں کو روندنے کے عمل کا ہی احساس ہوتا تو کم از کم یہ پوچھ لیا جاتا کہ کشمیر کی حیثیت کیونکر تبدیل کی اور اقوام متحدہ اس کا نوٹس لے گی ؟ اور اس رد عمل کے بعد تو سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ پاکستان اگر بھارت کے کسی حصہ پر قبضہ کرے تو کیا امریکا، عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کا رد عمل کیا ہوگا ؟۔

مسئلہ یہ نہیں کہ بھارت کیا کر رہا ہے ، بھارت اور اس کی سرکار وہی کر رہی ہے جو اس کا پہلے روز سے ہی ایجنڈا تھا اور حالیہ انتخابات کے دوران اس نے اپنے انتخابی منشور میں واضح طور پر اعلان کر رکھا تھا کہ برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیں گے، لیکن ہم نے اس کے مذموم ایجنڈے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا اور سب کچھ جانتے ہوئے کہ نریندر مودی کے عزائم کیا ہیں، اس پر سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔ ویسے تو حقائق یہی ہیں، بھارت کے عزائم پاکستان کے حوالے سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمیں مذکورہ صورتحال سے ہٹ کر خود اپنی حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری حکومتوں نے کشمیر کاز کو سنجیدگی سے لیا ؟ کشمیریوں پر ٹوٹنے والی قیامت پر دنیا کی نظر مبذول کرائی ؟ عملاً صورتحال یہ رہی کہ ہماری حکومتیں کہنے کو تو کشمیر کو پاکستان کیلئے کور ایشو کہتی ہیں مگر عملاً مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا رہا جس کا فائدہ خود بھارت اٹھاتا رہا، حکومت کی ترجیح کشمیر کاز سے زیادہ خود بھارت سے اچھے تعلقات اور مذاکرات رہے۔

کشمیر کے حوالے سے دیر پا حل صرف یہی ممکن ہے کہ کشمیر کے مستقبل کے فیصلہ میں اس کے عوام کی مرضی و منشا کو شامل کیا جائے اور یہی تاریخی آئین اور سیاسی فارمولا ہے۔ جہاں تک ساری صورتحال میں پاکستان کے کردار کا سوال ہے تو مسئلہ کے بنیادی فریق کے طور پر ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو پوری جرأت اور دانشمندی سے دنیا کے سامنے پیش کریں اور دنیا کو باور کرائیں کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کا خاتمہ خود مہذب دنیا کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے اس طرح غاضبانہ قبضہ کا رجحان عام ہوا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو اپنایا گیا تو اس سے عالمی امن بھی درہم برہم ہوگا اور قومی عالمی اداروں کی عزت و تکریم نہیں رہے گی۔ ایک اور سوال جو اٹھ رہا ہے کہ کیا بھارتی سرکار اپنے مذموم ایجنڈے کے تحت اپنے جارحانہ عزائم پر کاربند رہتے ہوئے پاکستان پر تو نہیں چڑھ دوڑے گی تو بھارتی عیّار اور مکار لیڈر شپ سے ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارتی قیادت کو افغان امن عمل میں پاکستان کا بڑھتا ہوا کردار ہضم نہیں ہو پایا اور چونکہ افغان امن عمل کو خود امریکا اور عالمی طاقتوں کی تائید و حمایت حاصل ہے لہٰذا وہ بظاہر تو کچھ نہیں کر سکا، لیکن وہ اس کامیابی کو ڈسٹرب کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ بھارت کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری اور سیاسی قیادت نے بھارت کے طرز عمل اور اس کی حکمت عملی پر غور و خوض کے بعد اپنا کوئی لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے یہ امر درست ہے کہ حکومت کو یہی کہنا چاہئے کہ ہم امن کے داعی ہیں لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ہم آخری حد تک جائیں گے۔ تاریخ سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ جو قو م جنگ سے خائف ہو گی اسے اپنی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑ ے گا۔ جو قوم جنگ کیلئے تیار رہے گی وہ اپنی آزادی عزت و وقار کا تحفظ کر پائے گی۔ سابق امریکی صدر نکلسن کا کہنا تھا کہ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قوت کے استعمال سے دستبرداری دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اگر ہم آئینی حکمت عملی پر یکسوئی اور سنجیدگی سے قائم رہے تو کشمیر کاز پر بھی کامیابی ملے گی اور پاک سر زمین کو بھی ہمیشہ کیلئے ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر لیا جائے گا۔