ایل ڈبلیو ایم سی کیس: بیوروکریٹس بھی نیب کے شکنجے میں آسکتے ہیں

Last Updated On 24 August,2019 11:40 am

لاہور: (رپورٹ: ذوالفقارعلی مہتو) پنجاب حکومت کی سرکاری کمپنیوں میں بد انتظامی، کرپشن اور غیر قانونی اقدامات کے سکینڈل کے تحت نیب پنجاب نے لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں گڑبڑ کے جس کیس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو جمعہ کو طلب کیا تھا، انوسٹی گیشن کے لحاظ سے نیب کی اپنی کارکردگی 'صفر' سے زیادہ نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی فرانزک آڈٹ رپورٹ کے نتائج (فائنڈنگز) کو اپنی تحقیقات قرار دیکر 'کریڈٹ' لینے کا طریقہ استعمال کیا ہے۔

روزنامہ دنیا نے 14 مارچ 2019 کو اس سکینڈل کے بارے میں فرانزک آڈٹ کے نکات اور اپنی آزادانہ تحقیقات پر مشتمل خبر شائع کی تھی جس پر نیب نے تقریباً 5 ماہ تحقیقات کے بعد گزشتہ روز شہباز شریف کو طلب کیا تھا لیکن سابق وزیر اعلیٰ بیماری کے باعث نیب افسروں کے سامنے پیش نہ ہوئے تاہم نیب کی ٹیم نے اپنے 7 سوالات پر مبنی تفتیش کیلئے 29 اگست کو ان کے گھر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف سے پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں دستیاب سرکاری دستاویزات کی بنا پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کیس میں شہباز شریف کے علاوہ ان کے قریبی کئی مزید بیوروکریٹس بھی نیب کے شکنجے میں آسکتے ہیں جن میں سابق چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ کے علاوہ ڈی سی او لاہور سجاد احمد بھٹہ، سابق چیئرمین پی اینڈ ڈی جاوید اسلم، سابق سپیشل سیکرٹری خزانہ نوید علاؤالدین اور سابق سیکرٹری بلدیات انوار احمد خان کے نام شامل ہیں۔

تحقیقات کے دوران یہ پتا بھی چلا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی طرف سے اس برس جنوری میں کئے گئے فرانزک آڈٹ میں ڈائریکٹر جنرل اعجاز الحق اور ڈائریکٹر شوزب رضا نے ایل ڈبلیو ایم سی میں فراڈ، خلاف قانون اقدامات اور مالی بے قاعدگیوں کے باعث پنجاب کے خزانے کو تقریباً 11 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے متعلق جن دو اہم ایشوز پر تحقیقات کی جائے گی ان میں ایک تو یہ ہے کہ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کی صفائی کیلئے چند ہفتے قبل قائم کئے گئے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کو محکمہ قانون اور خزانہ کی مخالفت کے باوجود لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) میں تبدیل کرنے کا حکم کیوں دیا۔ شہباز شریف سے دوسرا اہم سوال یہ کیا گیا ہے کہ ان کی حکومت نے لاہور کی صفائی کے نظام کی فزبیلٹی سٹڈی یا نظام کا خاکہ تیار کرنے کیلئے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کر کے ترکی کی کمپنی  ایسٹاک  کو ٹھیکہ کیوں دیا۔

دنیا نیوز نے ان دونوں اہم سوالات کے بارے میں دستاویزی شواہد کے ساتھ جو انویسٹی گیشن کی اس میں لگتا ہے کہ شاید شہباز شریف پی ایم یو کو ایل ڈبلیو ایم سی میں تبدیل کرنے کے سوال پر خود کو بری الذمہ قرار نہ دے پائیں تاہم  ایسٹاک  کو ٹھیکہ دینے کے سلسلے میں کئی بیوروکریٹ پھنس سکتے ہیں۔ دنیا نیوز نے یہ بھی پتا چلایا ہے کہ نیب کی طرف سے شہباز شریف سے پوچھے گئے دوسرے سوال میں ترکی کی کمپنی  ایسٹاک  کو کنسلٹنسی سروسز کا ٹھیکہ 4 لاکھ 92 ہزار ڈالر میں دیا گیا لیکن اس ٹھیکے کی پیپرا کے عمومی رولز کو بائی پاس کرنے سے پہلے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اکیلے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت منظوری نہیں دی بلکہ اس میں کئی افسروں کی منظوری کا  ٹھپا  لگوایا گیا۔

دنیا نیوز کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سپیشل سیکرٹری خزانہ نوید علاؤالدین کی توثیق کے بعد سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ نے وزیر اعلیٰ سے حتمی منظوری سے قبل اس وقت کے چیئر مین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب اسلم جاوید سے بھی پیپرا رولز بائی پاس کر کے ایسٹاک کو ٹھیکہ دینے کے بارے میں رائے طلب کی جس پر اسلم جاوید نے 19 اگست 2010 کو مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے سمری پر لکھا کہ گزشتہ تین ماہ سے یہ ٹھیکہ دینے کا معاملہ چل رہا ہے ، اس مرحلے پر جب یہ فائنل ہونے جا رہا ہے، پیپرا رولز کی شق 2 (این) کے استعمال کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا، تاہم لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو پابند کیا جائے کہ ایسٹاک کو ٹھیکہ دیتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنے ٹرمز آف ریفرنس کی منظوری پی اینڈ ڈی سے لے گی۔ اس کاغذی کارروائی کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اگلے روز 20 اگست 2010 کو ایسٹاک کو ٹھیکہ دینے کی سمری پر دستخط کر دیئے اور اسی روز چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ نے بھی اس پر دستخط کئے۔

اس تمام کہانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ اس کیس میں آسانی سے باہر نہیں نکل سکیں گے جبکہ دوسری طر ف یہ بھی حقیقت ہے کہ فرانزک آڈٹ رپورٹ تیار کرنے والے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ اعجاز الحق اور ڈائریکٹر آڈٹ شوزب رضا نے ایل ڈبلیو ایم سی کے گزشتہ 8 سال کے آڈٹ میں کرپشن، اقربا پروری اور دیگر غیر قانونی اقدامات سے پنجاب کے خزانے کو 11 ارب روپے کے نقصان کی نشاندہی کی ہے اور یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل پاکستان جاوید جہانگیر کے دفتر اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پیش کرنے کے آخری مراحل میں ہے۔