لاہور: (روزنامہ دنیا) چونیاں کے بارے میں ان دنوں انتہائی اندوہناک خبریں آ رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چونیاں تاریخ میں 9 مرتبہ تباہ ہوا، کیا خبر یہ تباہی بعض لوگوں کے جرائم اور گناہوں کا نتیجہ ہو؟
ضلع قصور کا شہر اور ایک تحصیل، یہ شہر لاہور سے جنوب کی طرف دریائے بیاس کے پُرانے اور اونچے کنارے کے اوپر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
صدیوں پہلے دریائے بیاس یہاں سے ہٹ کر اپنے نشان چھوڑ چکا۔ موجودہ شہر تقریباً 500 سال پُرانا ہے، مگر اس کے قرب وجوار میں ہزاروں برس پُرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔
1978ء میں محکمہ آثارِ قدیمہ نے چُونیاں شہر کے قریب ٹیلے کی کھدائی کی تو یہاں سے پُرانے برتنوں کے علاوہ 323 ق م کے سکندر اعظم دور کے سِکّے بھی برآمد ہوئے۔
گویا اس زمانے میں یہاں ایک بڑا شہر آباد تھا۔ اس کے موجودہ نام کے متعلق مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسے مغل بادشاہ اکبر کے وزیر مال راجہ ٹوڈرمل نے آباد کیا تھا اور اپنی بیٹی ’’چُنی‘‘ کے نام پر اس کا نام چُونیاں رکھا۔
جبکہ تاریخ مخزن پنجاب کے مصنف مفتی غلام سرور نے بیان کیا ہے کہ پہلے یہ ویرانہ تھا۔ 952 ہجری میں سیّد کمال شاہ پیر جہانیاں اوچ سے آکر یہاں سکونت پذیر ہوئے۔
اس وقت دریائے بیاس یہاں بہتا تھا۔ چونکہ آپ ولی باکمال تھے اس لئے چاروں طرف سے عقیدت مند آپ کے پاس حاضر ہونے لگے۔ ان میں سے ایک چونی نامی بڑھیا جو آپ کی بہت زیادہ عقیدت مند تھی یہاں آباد ہو گئی۔
کچھ مدت بعد یہ جگہ باقاعدہ آبادی کی شکل اختیار کر گئی اور مریدوں نے حضرت کی اجازت سے اس کا نام عورت چونی کے نام سے چونیاں رکھا۔
قصوری پٹھانوں کی حکومت جب اس خطہ میں قائم ہوئی تو یہاں سات بستیاں آباد ہو گئیں۔ ایک پرانی چونی، دوسری چھوٹی چونی، تیسری محرم خان کا کوٹ، چوتھی کو گلی پہلوان، پانچویں قلعہ ٹوڈر مل، چھٹی کوٹ راجہ اور ساتویں موجودہ چونیاں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان میں سے چھ بستیاں اُجڑ گئیں اور صرف ایک بستی چونیاں باقی رہ گئی۔ ان بستیوں کی تباہی کی وجہ جنگ وجدل تھی۔ بادشاہ محمد بادشاہ کے زمانے میں حاکم پنجاب عبدالصمد خان اور قصور کے رئیس حسین خان کے درمیان لڑائی ہوئی۔
یہ خونریز لڑائی چونیاں کی عیدگاہ کے پاس ہوئی اور اس میں حسین خان مارا گیا تھا۔ اس وقت یہاں کی بہت ساری آبادی قتل وغارت کے خوف سے نقل مکانی کر گئی۔
بعد ازاں طوائف الملوکی کے دور میں سکھوں کی بھنگی مِثل نے بھی اس آبادی کو خوب لُوٹا۔ باقی کسر قحط نے پوری کردی۔ یوں چھ بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔
ان کے پُرانے کھنڈرات عرصے تک موجود رہے۔ ان کھنڈروں کی بے شمار اینٹیں ریل کے پڑاؤ پر خرچ ہوئیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہاں ہندو آبادی اکثریت میں تھی۔ 1864ء میں یہاں تھانہ قائم ہوا۔ 1868ء کی مردم شماری کے مطابق چونیاں شہر کی آبادی 7355 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1881ء میں یہ آبادی بڑھ کر 8122 افراد ہو گئی۔
ان میں 4085 مسلمان، 3835 ہندو اور 202 سکھ تھے۔ اس وقت یہ چھانگا مانگا ریلوے سے منسلک ہو چکا تھا اور یہاں تحصیل دفتر، تھانہ، سکول، ڈسپنسری اور ریسٹ ہائوس موجود تھے۔
1931ء میں اس کی آبادی 10093 افراد پر مشتمل تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں کی تمام ہندو اور سکھ آبادی بھارت منتقل ہو گئی۔ اس کی موجودہ آبادی 60 ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ شہر تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کا درجہ رکھتا ہے۔
قلعہ روپا سنگھ، محلہ قاضیاں، محلہ اسلام آباد، ظہیر آباد کالونی، النور کالونی، فیصل کالونی، محلہ ڈاکخانہ بازار، ظفر ٹائون، فاروق گنج، رکھ چونیاں، کوٹ عمروٹو، غوثیہ آباد، کچی آبادی، اقبال ٹاؤن، محلہ رسولنگر، جمال ٹاؤن، کلہ ٹاؤن، رحیم ٹاؤن، جنت ٹاؤن، شہزادہ سٹی، گلشن مدینہ، پیر مدد علی کالونی اور محلہ پُرانا کارخانہ یہاں کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔
مین بازار، غلہ منڈی، سبزی منڈی اور خالد مارکیٹ یہاں کے اہم تجارتی مراکز ہیں۔ گندم، چاول اور کماد یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ یہاں کی ایک اہم سوغات ’’ونگا‘‘ ہے۔
یہ ایک خاص قسم کی سبزی ہے جو کھیرے کی طرح سلاد کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس کی کاشت صرف چونیاں اور بھائی پھیرو کے علاقے میں محدود سطح پر ہوتی ہے۔
کھانے پینے میں یہاں کا فیروز پوری ہوٹل مشہور ہے۔ چونیاں کے ساتھ دریائے بیاس بہتا تھا اور جب تجارت دریاؤں کے ذریعے سے کی جاتی تھی تو اس وقت تحصیل چونیاں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ یہ زرعی علاقہ تھا اور تجارت کے لئے چونیاں موزوں ترین تھا۔
اس زمانے میں ہندوستان کی تین بڑی جننگ فیکٹریاں شہر چونیاں میں لگائی گئی تھیں۔ اب ایک فیکٹری کا نام پُرانا کارخانہ رکھ دیا گیا ہے۔ دوسری فیکٹری کی جگہ ایک کوٹھی تعمیر ہو چکی ہے جبکہ تیسری فیکٹری سول ہسپتال چونیاں کے سامنے تھی جس پر اب مارکیٹ تعمیر ہو چکی ہے۔
کئی کتابوں میں چونیاں کا نام تھل بھی لکھا ہے۔ تحصیل چونیاں کی ایک اور بہت بڑی بات یہ ہے کہ اپنے زمانے کی مشہور داستان سسّی پنوں کے متعلق بھی بہت سے اہلِ علم و دانش نے ذکر کیا ہے کہ وہ چونیاں کے تھے۔
چونیاں کے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹ عمر وٹو کے نزدیک ایک تالاب بھی ہے جس کے بارے میں یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ سسّی پنوں یہاں ہر روز ملا کرتے تھے۔
مغلیہ دور کے معروف وزیر مال راجہ ٹوڈرمل کا تعلق بھی چونیاں سے تھا۔ تحصیل چونیاں اس وقت تھانہ چھانگا مانگا، تھانہ کنگن پور، تھانہ ٹھینگ موڑ اور تھانہ چونیاں پر مشتمل ہے۔
1992ء تک پتوکی بھی اس میں شامل تھا، مگر اس سال پتوکی کو الگ کر کے تحصیل بنا دیا گیا۔ چونیاں کے علاقے میں ایک انڈسٹریل فری زون بھی قائم کیا گیا ہے جہاں برادر شوگر مل، برادر انڈسٹری اور گتا فیکٹری وغیرہ قائم ہیں۔ یہاں طلبہ اور طالبات کے ڈگری کالج، لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی سکول، سول عدالت، تحصیل دفاتر، تھانہ اور ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔
(اسد سلیم شیخ کی یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)