نیویارک: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے خطاب میں دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، یہ صورتحال دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنج، منی لانڈرنگ کی روک تھام، اسلاموفوبیا اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تاریخی خطاب کیا۔
مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ تسلط
اپنے خطاب کے سب سے اہم حصے میں مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط اور کرفیو سے وہاں کی عوام کو درپیش سنگین مسائل سے دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ میں کشمیر کے لئے آیا ہوں۔
انہوں نے دنیا کو بتایا کہ نریندر مودی کے غرور نے اس کو اندھا کر رکھا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کے باعث 9 لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 55 دن سے لاک ڈاؤن ہے۔ پیلٹ گنوں سے نوجوانوں کی بینائی چھینی جا رہی ہے۔ تیس ہزار کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دنیا سوچے اتنے ظلم کے بعد کشمیریوں کا کیا ردعمل ہوگا؟
وزیراعظم نے عالمی ادارے کو یاد دہانی کرائی کہ کشمیریوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھا۔ آپ لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اگر پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ وقت ہے جب اقوام متحدہ کو فوری ایکشن لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانا چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جا رہے۔ کشمیریوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، اگر اسی طرح یہودی اور یورپین کو گھروں میں بند کیا جاتا تو آپ لوگوں کا کیا ردعمل ہوتا؟ 80 لاکھ جانوروں کو ایسے قید کیا جاتا تو دنیا میں شور مچایا جاتا۔
جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم کی تقریر کے دوران تالیاں بجتی رہیں جبکہ بھارتی مندوب اس دوران منہ لٹکائے بیٹھے رہے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ میں نے جب اقتدار سنبھالا تو مودی سے مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کی بات کی اور کہا کہ مشترکہ مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کریں لیکن جب بھی مذاکرات کے قریب آئے بھارت نے انکار کر دیا حتیٰ کہ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں بلیک لسٹ کرانے کی کوشش کی۔ بھارت نے پلوامہ حملے کا بغیر ثبوت الزام لگا دیا حالانکہ یہ حملہ 23 سالہ کشمیری نوجوان نے حملہ کیا۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کو باور کرایا کہ مودی نے الیکشن ہی پاکستان مخالف مہم سے لڑا۔ الیکشن ختم ہوئے تو بھارت سے دوبارہ مذاکرات کی بات کی اور کہا کہ اگر بھارت کے پاس ثبوت ہیں تو ہمیں فراہم کیے جائیں لیکن اس پیشکش کا منفی جواب دیتے ہوئے بھارت نے ہماری سرزمین کی خلاف ورزی کی اور بم گرا دیے، جنہوں نے چند درخت گرانے کے علاوہ ہمارا اور کوئی نقصان نہیں کیا۔ ہم نے دو بھارتی جہاز مار گرائے اور جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک انڈین پائلٹ کو بھی واپس کر دیا۔ اس موقع پر جنرل اسمبلی کا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
آر ایس ایس کے نظریات کا پردہ چاک
وزیراعظم عمران خان نے آر ایس ایس کے مذموم مقاصد کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا یہ انتہا پسند ہندو تنظیم ایڈولف ہٹلر سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ اس کی نفرت انگیزی کے باعث مہاتما گاندھی کا قتل ہوا۔ یہ جماعت آریا سماج اور مسلمانوں کی نسل کشی پر یقین رکھتی ہے۔
ہم آخری سانس تک لڑیں گے
وزیراعظم نے اپنے پرجوش خطاب میں کہا کہ میرا یقین ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا میں کشمیر میں ہونے والے ظلم پر خاموش رہوں؟ میں ظلم کیخلاف لڑوں گا، ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے، اگر دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو ہمارے پاس صرف دو ہی راستے بچیں گے، یا تو لڑیں یا پھر سرنڈر کر دیں، مگر ہمارا ایمان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ہے۔ اگر دو جوہری ہمسایوں کی جنگ ہوئی تو ہم آخر تک لڑیں گے۔ یہ میں کسی کو دھمکی نہیں دے رہا بلکہ تمام لوگوں کو متنبہ کر رہا ہوں کہ اقوام متحدہ یہ سب ہونے سے پہلے کچھ کرے۔
دنیا میں اسلاموفوبیا کا پروپگینڈا
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میرا تیسرا نقطہ اسلاموفوبیا ہے جس میں نائن الیون کے بعد اضافہ ہوا اور اس کا پروپیگنڈا کیا گیا۔ بعض مغربی لیڈروں نے دہشتگردی کو اسلام سے جوڑا، حالانکہ دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں۔ نائن الیون سے پہلے تامل ٹائیگرز خود کش بمبار تھے جو کہ ہندو تھے لیکن ہندوؤں کو کسی نے ہندو دہشتگرد نہیں کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا سے دنیا میں تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ یورپین ممالک میں مسلمان اقلیت کی صورت میں رہتے ہیں۔ کسی بھی کمیونٹی کو دیوار سے لگانے سے شدد پسندی بڑھتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم ممالک کی لیڈرشپ مغرب کو اس حوالے سے صحیح آگاہ نہیں کر سکی۔ اسلامو فوبیا سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی جس سے صورتحال خراب ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کچھ ممالک میں کم کپڑے پہننے پر پابندی نہیں لیکن حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اسے دنیا کا برا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ حجاب تو کوئی ہتھیار نہیں ہے۔
نبی ﷺ کی شان میں گستاخی مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انتہا پسندی کا درس نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ مسلمانوں کیلئے کیا ہیں؟ دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی توہین پر مسلمانوں کا ردعمل آتا ہے تو انھیں انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔
اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ نے غلامی پر پابندی لگائی۔ مدینہ کی ریاست میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں تھا۔ ریاست مدینہ میں ٹیکس کی رقم غریبوں پر خرچ کی جاتی تھی۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری قربانی دی۔ پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ 70 ہزار جانیں قربان کیں۔ کوئی بھی پاکستانی نائن الیون میں ملوث نہیں تھا لیکن دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کی فنڈنگ مغربی ممالک بالخصوص امریکا نے کی۔ روس کیخلاف لڑنے والے مجاہدین تھے لیکن جب یہی مجاہدین امریکا کیخلاف ہوئے تو دہشت گرد قرار دیئے گئے۔
منی لانڈرنگ کی روک تھام
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے دوسرے اہم نقطے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال اربوں ڈالر غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔ امیر افراد اربوں ڈالر امیر ممالک میں منتقل کرتے ہیں۔ جعلی کمپنیوں کے ذریعے امیر ممالک میں رقم منتقل کی جا رہی ہے۔ منی لانڈرنگ سے ترقی پذیر ممالک میں غربت بڑھتی ہے۔ امیر ممالک کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کیخلاف ایکشن لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مشکل حالات اور چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ملک کا قرضہ 10 سال میں 4 گنا بڑھ گیا۔ ہمیں ملک سے لوٹی گئی گئی رقم واپس لانے کیلئے مشکلات کا سامنا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے اقدامات کرے گا۔
دنیا کو درپیش ماحولیاتی چینلج
اپنے تاریخی خطاب کی شروعات میں وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو اس وقت درپیش ماحولیاتی چیلنج پر بات کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ گلیشیئر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماحولیات سے نمٹنے کے لیے ہمیں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہماری حکومت نے پانچ سالوں میں دس ارب درخت لگانے کا ہدف رکھا ہے۔ ایک ملک کچھ نہیں کر سکتا، پوری دنیا کو اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے تاریخی خطاب کے بعد خوشگوار موڈ میں واپس جا رہے ہیں۔