مقبوضہ کشمیر میں سول نافرمانی سے بھارتی حکومت پریشان

Last Updated On 15 October,2019 08:53 am

سرینگر: (روزنامہ دنیا) مقبوضہ کشمیر میں خاموشی سے جاری سول نافرمانی سے دہلی سرکار پریشان ہو گئی۔ وادی میں 70 روز بعد انٹرنیٹ کے بغیر پوسٹ پیڈ موبائل فون بحال کر دیئے گئے، جب کہ 30 لاکھ سے زائد پری پیڈ موبائل صارفین ابھی تک سہولت سے محروم ہیں۔ پوسٹ پیڈ فون کھلنے کے بعد انتظامیہ نے سرینگر میں اہم سڑکوں پر رکاوٹیں بڑھا دی ہیں، جگہ جگہ ناکے اور خاردار تار لگا دیئے گئے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حالات ویسے نہیں ہیں جیسے مودی سرکار پیش کر رہی ہے بلکہ وہاں ایک قسم کی پراسرار خاموشی اور ‘‘سول نا فرمانی’’ جیسی صورت حال ہے، جسے کشمیریوں کے احتجاج کا نیا طریقہ کہا جا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں، کہیں بھی کرفیو نافذ نہیں ہے، البتہ وہاں اجتماعات پر پابندی ہے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 144 نافذ ہے۔

غیر سرکاری تنظیم انہد کی روح رواں اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکار یا نیشنل میڈیا جو بتا رہا ہے حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ نارملائزیشن (حالات معمول پر آنا) سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔ کشمیر تو پوری طرح بند پڑا ہے۔ سری نگر میں البتہ کچھ دکانیں صبح و شام کھلتی ہیں۔ سرکاری ملازموں سے کہا گیا ہے کہ انہیں کام پر جانا ہے تو وہ اپنی گاڑیوں سے جائیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ بالکل بند ہے۔ ہم جہاں بھی گئے وہاں سب بند ہے۔ سارے رہنما بند ہیں۔ کوئی کال نہیں ہے لیکن لوگ پہلی مرتبہ خاموشی کو ایک ہتھیار کے طور پر سول نافرمانی کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور گاندھی کے ستیاہ گرہ کے طرز پر اپنا احتجاج دکھا رہے ہیں۔ اگر اب کشمیر میں عسکریت پسندی ابھرتی ہے تو اس کے ذمہ دار مودی حکومت اور امت شاہ ہوں گے کیوں کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کیا ہے۔

حقوق انسانی کے کارکن اویس سلطان خان نے ابھی دو دن قبل ہی سول سوسائٹی کے ایک علیحدہ وفد کے ساتھ کشمیر کا اپنا چار روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر میں بہت زیادہ بے چینی کا ماحول ہے لیکن پورے کشمیر میں ایک تاریخی بات یہ ہو رہی ہے کہ وہاں لوگ عدم تشدد کے ساتھ نئے طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ سارا کشمیر صبح سات بجے بیدار ہوتا ہے، دکانیں کھلتی ہیں لیکن پھر وہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سب بند کر دیتے ہیں۔ سیب کی فصل تیار ہے، کثیر تعداد میں پھل پیڑوں پر لگے ہیں۔ لوگ اسے سکھا رہے ہیں لیکن فروخت نہیں کر رہے۔ نہ صرف بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو گرفتار کیا گیا بلکہ محرم کا جو جلوس نکلا اور اس پر بھی شیلنگ ہوئی، گولیاں چلیں، ذاکر حضرات گرفتار ہوئے۔ پہلی بار تمام کشمیری ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور وہ اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں اور اس سے نئی دہلی کے حکمرانوں میں بے چینی ہے کہ ان پر تشدد ہو رہا ہے، گولیاں چل رہی ہیں اور پھر بھی کشمیری کیوں پُرتشدد احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔

اس کے متعلق جب شبنم ہاشمی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کا خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح کشمیری نکلیں گے، پتھر ماریں گے، سڑکوں پر نکلیں گے اور گولی چلے گی، جس کے نتیجے میں پانچ دس ہزار لوگ مر جائیں گے، جس کے خوف میں ان کو ڈرا کر کنٹرول کر لیا جائے گا، وہ ہوا نہیں۔ رائٹرز کے مطابق درآمدی ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر پابندیوں کے خدشے کے پیش نظر بھارتی تاجروں نے ملائشین پام آئل کی خریداری بند کر دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے بہیمانہ اقدامات پر تنقید کے باعث بھارتی حکومت پام آئل سمیت ملائیشیا سے دیگر درآمدات پر پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے۔ ممبئی کے ڈیلر نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملائشیا کے ساتھ کاروبار سے پہلے وہ حکومت کی وضاحت چاہتے ہیں۔ نومبر کے لیے انہوں نے 5 ہزار ٹن پام آئل ملائشیا سے درآمد کرنا تھا، مگر ممکنہ درآمدی پابندی کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے ڈیل کرنے سے گریز کیا۔ اگر حکومت نے چند روز میں صورت حال کی وضاحت نہ کی تو وہ انڈونیشیا سے خریداری کریں گے۔

ادھر وادی میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ قابض انتظامیہ کی طرف سے 10 ویں اور 12 ویں جماعت کے بورڈ امتحانات رواں ماہ کے آخری ہفتے میں منعقد کرانے کے فیصلے پر گزشتہ 71 دنوں سے غیر معمولی فوجی محاصرے اور مواصلاتی پابندیوں کا شکار مضطرب کشمیری طلبہ نے کہا ہے کہ نامکمل نصاب ان کے امتحانات دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ مسلسل تعلیمی ادارے بند رہنے کے باعث وہ اپنا نصاب تعلیم مکمل نہیں کر سکے ہیں، جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ بغیر تیاری کے امتحان نہیں دے سکتے۔ وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کو 71 روز گزر گئے۔ دوسری جانب پیر کو رات گئے شوپیاں کے قریب شرمل گاؤں میں نامعلوم افراد نے سیب کے ٹرکوں کے قافلے پر حملہ کر دیا، جس سے ایک شخص ہلاک ہو گیا، جب کہ عسکریت پسندوں نے ایک ٹرک کو نذر آتش کر دیا۔ اس موقع پر انہوں نے مالک کو شدید تشددکا نشانہ بھی بنایا۔