آثار، شواہد بتا رہے آزادی مارچ اختتامی مرحلے میں داخل ہو رہا

Last Updated On 05 November,2019 09:20 am

لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کا کہنا ہے کہ تمام آثار، شوہد، اطلاعات اور اندازے بتا رہے ہیں کہ آزادی مارچ اب اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، مولانا فضل الرحمن کی خواہش تھی کہ وزیر اعظم اس کے اختتام سے پہلے استعفیٰ دیں، ایسا کوئی امکان نہیں نہ ہی ایسا ہونے جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مولانا کا یہ پُر اثر اور پُر امن آزادی مارچ ناکام ہو گیا ہے ، حکومت کو بھی جگا دیا ہے، حکومت نہ گر سکتی تھی نہ گری ہے لیکن عوام کے ایک بڑے حصے کی ناراضی اس احتجاج کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

یہ بھی اہم بات ہے کہ ہم نے آزادی مارچ کے شرکا اور حکومت دونوں کی جانب سے کہیں تشدد نہیں دیکھا، اس طرح اس پُر امن احتجاج نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ دھرنے کے مقام پر راوی چین لکھ رہا ہے، اس کے ساتھ مولانا نے ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی بڑی اہم قوت ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم اور بھاری بھر کم جماعت آج جمعیت علمائے اسلام نظر آتی ہے۔ کہنے کو یہ اپوزیشن کا مارچ تھا مگر پاکستان کے تمام تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ یہ دراصل جے یو آئی کا سولو شو تھا۔ پیپلزپارٹی، (ن) لیگ اور دیگر جماعتوں نے اس میں آٹے میں نمک کے برابر شمولیت کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پیر کو دھرنے کے شرکا سے ایک اور خطاب کیا ہے، اس کے بعد شاید ایک دو خطاب اور ہوں گے اور واضح رہے کہ آزادی مارچ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے حوالے سے رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ زورو شور سے جاری ہے، مارچ کی وجہ سے کہیں گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ ہمارے مطالبات میں نئے الیکشن اور الیکشن میں فوج کا کردار نہیں ہونا چاہیے اور وزیراعظم کا استعفیٰ بھی شامل ہے، ہم نے اپنے پرانے مطالبات پرویز خٹک کے سامنے رکھے، آج منگل کو دوبارہ 3 بجے میرے گھر پر ملاقات ہو گی۔ اکرم خان درانی نے بتایا پرویز خٹک کے ساتھ اچھے ماحول میں مذاکرات ہوئے، ہم حکومت کو اپنی طاقت دکھا رہے ہیں، جب کوئی نئی بات ہوگی تو اپوزیشن سے مشاورت کریں گے، اپوزیشن پوری طرح متحد ہے۔

میزبان کے مطابق آزادی مارچ ضرور جاری ہے لیکن اس میں تلخی نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن کو شاید اس بات کا احساس ہے کہ فی الحال وزیراعظم کا استعفیٰ ممکن نہیں اسی لیے اس ماحول میں بھی تھوڑی بہتری نظر آ رہی ہے ۔ پاکستان میں اس ماحول کی وجہ سے کاروبار میں بھی بہتر آثار نظر آئے ہیں۔ سٹاک ایکس چینج کے انڈیکس میں ریکارڈ 900 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے کیوں کہ مارکیٹ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ سیاسی تلخی تحلیل ہو رہی ہے، آزادی مارچ کے شرکا سے بھی کسی صورت یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی تناؤ کے ماحول میں یا کسی جنگ یا خطرناک یلغار کے لیے آئے ہیں۔ آزادی مارچ میں احتجاج کے ساتھ ساتھ تفریح کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ شرکا کھیل کود کر وقت گزارتے ہیں، لگتا ہے جیسے ان کا بچپن لوٹ آیا ہے، وہ پارک میں جھولے جھول رہے ہیں، کرکٹ بھی جاری ہے، عارضی رہائش گاہ پر پورا انتظام کیا ہے، بجلی کی بھی کوئی ٹینشن نہیں۔ شرکا سولر پینل ساتھ لائے ہیں، وہ علاقے میں صفائی کا بھی خاص خیال رکھ رہے ہیں۔

دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔ میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق مریم نواز اپنے والد نواز شریف اور شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی طرح آزاد شہری ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ اور شریف گھرانے کے لیے یہ ایک بہت اچھا ماحول ہے۔ شہباز شریف وہ پہلی شخصیت ہیں جن پر ملک سے آنے جانے پر پابندی نہیں، وہ ہر طرح سے بہت آسودہ ماحول میں ہیں۔ آصف زرداری بھی پمز میں آرام سے ہیں اور ڈاکٹر ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کی طبیعت یقیناً خراب ہے لیکن وہ کافی آرام سے ہیں۔ میزبان کا کہنا تھا مسلم لیگ (ن) کے لیے آج اہم دن تھا۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا انصاف ہوا ہے اور مریم نواز کی ضمانت قانونی شواہد اور میرٹ پر ہوئی ہے، یہ ضمانت ان کی اپنی صحت یا والد کی بیماری کو مد نظر رکھ کر نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا مریم نواز فی الحال کچھ دن والد کی تیمار داری پر فوکس کریں گی، اب بھی نواز شریف کے پلیٹ لیٹس میں اتار چڑھاؤ کا عمل جاری ہے، ان کے جسم کی اپنی مدافعت ہی ان کے پلیٹ لیٹس کو مار رہی ہے، جو بڑی سنگین چیز ہے، میرا قیاس ہے کہ کچھ دن وہ اپنے والد کی تیمارداری کریں گی۔ انہوں نے کہا اس وقت نواز شریف سفر نہیں کر سکتے، ان کے بیرون ملک علاج کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ نواز شریف کی صحت کے معاملات اولین ترجیح ہے، ان کی فیملی کی ترجیح یہی ہے کہ کوئی رسک نہ لیا جائے ، یہ اللہ کے معاملات ہیں۔