کرتارپور راہداری مذہبی رواداری کا ماسٹر سٹروک

Last Updated On 10 November,2019 10:37 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور محاذ آرائی کی کیفیت میں پاکستان کی جانب سے سکھ کمیونٹی کیلئے مقدس عبادت گاہ کرتارپور کیلئے راہداری کے اقدام کو مذہبی رواداری کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے ماسٹر سٹروک قرار دیا جا سکتا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق منصوبے کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطے میں امن، ٹھہراؤ کیلئے اہم ہو گا، جب کسی بھی کمیونٹی کو اپنی عبادت کیلئے ممکنہ سہولتوں کی فراہمی مہذب معاشرے اور ذمہ دار ملک کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، لہٰذا دیکھنے میں آیا کہ ایک جانب دنیا بھر سے آنے والی سکھ کمیونٹی بابا گورونانک کے یوم پیدائش کے حوالے سے جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے کرتارپور میں داخل ہو رہی تھی تو دوسری جانب اس اقدام پر بھارتی انتہا پسند بی جے پی کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے۔

مذکورہ اقدام پر ایک بڑا رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک جانب ہزاروں سکھ یاتری اپنے مقدس مقام کیلئے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے تو دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں سے ان کی عبادت گاہ چھینی جا رہی تھی اور اس کی بڑی وجہ ہندوتوا پر کاربند ہندو انتہا پسندی ہے، گو کہ یہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے مگر اس کی ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کا حصہ ہے اور اسی طرح فیصلے کو اس کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے متعصبانہ اور جانبدارانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاک بھارت صورتحال اور تناؤ میں جہاں کرتارپور راہداری کے اقدام کو دیکھنا پڑے گا تو دوسری جانب بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے حوالے سے فیصلے کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ پاکستان نے کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھ کمیونٹی کو کرتارپور راہداری کی صورت میں تاریخ ساز مذہبی تحفہ دیا۔

یقیناً اس سے سکھ کمیونٹی تو خوش ہوئی ہوگی اور پاکستان کو دعائیں دیتی نظر آ رہی ہے لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اچھا اور سنجیدہ کردار دیکھنے میں آیا، پاکستان کی روشن تصویر دنیا کے سامنے پیش کی گئی۔
جہاں تک اس روز بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ پر ہندوؤں کا حق قرار دینے کے ا قدام کا تعلق ہے تو اس کی ٹائمنگ کو غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ سنائے جانے کا اعلان یہ ظاہر کر رہا تھا کہ بھارت کو کسی طرح کرتارپور راہداری ہضم نہیں ہو رہی۔


ظاہر ہو رہا تھا بھارتی سپریم کورٹ بھی بھارتی سرکار کی طرح ہندوتوا کے مائنڈ سیٹ کا شکار ہے اور اس نے ایک متعصبانہ اور غیر حقیقت پسندانہ فیصلہ دے کر نہ صرف اپنی ساکھ کے حوالے سے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دیا کہ نریندر مودی سرکار کی طرح اس کی عدلیہ اور ادارے بھی ہندوتوا کا شکار ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس میں زیر سماعت کشمیر سمیت بعض اہم نوعیت کے فیصلوں کے حوالے سے بھی امیدیں ختم ہو گئی ہیں۔