سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ، سماعت آج پھر ہوگی

Last Updated On 28 November,2019 12:00 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) عدالت عظمیٰ نے نئی حکومتی سمری پر بھی اعتراضات اٹھائے ہوئے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل دو سو تینتالیس کے تحت توسیع نہیں، نئی تقرری ہوتی ہے، آپ جس شق میں ترمیم کرکے آئے ہیں وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔

چیف جسٹس نے کہا جس شق میں ترمیم کی گئی، وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، اس طرح تو اسسٹنٹ کمشنر بھی نہیں لگایا جاتا۔ ابھی وقت ہے، حکومت دیکھ لے وہ کیا کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے۔ نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کرائی جائیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی نئی سمری پیش کی۔ سپریم کورٹ نے حکومت کی نئی سمری پر بھی اعتراضات اٹھا دئیے۔

بنچ نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق حکومت کا سارا کیس رول 255 کے گرد گھوم رہا ہے لیکن جس آرٹیکل میں ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ منگل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلطیاں دور کر دی گئی ہیں۔ عدالت نے حکومتی دستاویزات کو دیکھ کر ہی حکم دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے، جو صفحات آپ نے دئیے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔ یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی؟

دوران سماعت انور منصور نے بتایا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت کم کرکے دوبارہ تعینات کیا۔ روایات برطانوی آئین سے اخذ کی گئی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین موجود ہے تو روایات کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی نہیں چاہتا آرمی کمانڈ کے بغیر رہے۔ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے، ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی 
بھی نہیں ہوتی۔ آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔ نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کرائیں۔

چیف جسٹس نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ ماضی میں جنرل خود کو 10، 10 سال تک توسیع دیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، اب سوال اٹھایا ہے تو معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ صرف اللہ کو جوابدہ ہیں، اگر کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے تو ہمارا حلف ہے کہ کالعدم قرار دیں۔ تسلی سے سب کو سنیں گے، قانون سمجھنا چاہتے ہیں، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے لائسنس کا مسئلہ حل کریں، کہیں آئندہ سماعت کے دوران مختار نامے پر پورا وقت نہ گزر جائے۔

اس سے پہلے جب سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے، ان سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہ گئے تھے؟ آپ کی درخواست عدالت نے زندہ رکھی۔

ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں۔