بظاہر معمولی دکھائی دینے والا یہ گھریلو پودا روزمرہ انسان پر اثرانداز ہونے والی کئی بیماریوں کے علاج میں معاون ثابت ہوتا ہے
لاہور (روزنامہ دنیا ) رنگ لاتی ہے حنا پتھر پر گھس جانے کے بعد اکثر یہ فقرہ سنتے رہتے تھے لیکن اس کے ایک دو تجربے ایسے ہوئے کہ واقعی مہندی کی افادیت دو چند ہو گئی ۔ میری دوست کے ناخن پر چوٹ لگی ، ناخن سیاہ پڑ گیا ، ہاتھ کا ناخن تھا ، دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوتا تھا ۔ پھر ایسا ہوا کہ ناخن متورم ہو گیا ۔ ڈاکٹروں سے پوچھ کر بہت کریمیں لگائیں ۔ ورم اتر گیا مگر بقول ڈاکٹر ناخن کی پھپھوندی مشکل سے جائے گی ۔
علاج ہوتا رہا، ایک دن میں نے حکیم صاحب مرحوم سے پوچھا طب مشرقی میں ناخن کی پھپھوندی کے لیے کیا علاج ہے؟ وہ کہنے لگے تازہ مہندی پیس کر اس میں تھوڑا سا جو کا سرکہ ملا کر ناخن پر روزانہ لگائیے۔ براؤن کلر کا ایک سرکہ گھر میں موجود تھا، حکیم صاحب کو دکھا کر یہ نسخہ استعمال کرنا شروع کیا۔ چند ہی ہفتوں میں ناخن کا ورم اتر گیا اور آہستہ آہستہ نیا ناخن آنے لگا۔ یہ ناخن چمک دار اور خوبصورت تھا۔ اس کے بعد ناخن کبھی خراب نہیں ہوا۔ اسی طرح ایک بچی کے سر میں پھنسیاں ہوگئیں۔ وہ ہر وقت سر کو کھجاتی رہتی۔ بال اتروا دیے۔ خارش ختم نہ ہوئی۔ حکیم صاحب کو دکھایا تو انہوں نے روغن حنا کی بوتل نکالی اور تھوڑا سا تیل بچی کے زخموں پر لگانے کے لیے دے دیا۔ چند روز میں بچی کے سر کی پھنسیاں ختم ہوئیں اور بال دوبارہ گھنے اور چمک دار نکل آئے۔
حکیم صاحب نے یہ تیل مہندی کے پھولوں اور پتوں کو پانی میں پکا کر چھان کر پھر تلوں کے تیل میں یہ پانی ملا کر پکایا تھا۔ پانی ختم ہونے پر تیل چھان کر رکھ لیا تھا اور مریضوں کو یہ تیل حسب ضرورت دیا کرتے تھے۔ مجھے ان کی یہ بات یاد تھی۔ مہندی کا تجربہ میں نے اپنے عزیز بھائی پر کیا۔ ان کا مسئلہ یہ تھا کی جیسے ہی گرمی آتی وہ موسم کی حدت سے پریشان ہو جاتے۔ مزاج بے حد گرم تھا۔ گرمی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہاتھ پاؤں سرخ ہو جاتے اور جوتی پہن کر چند قدم چلتے تو تلوے تپ جاتے۔ چلا ہی نہیں جاتا تھا۔ سارے کام کاج تلپٹ ہو جاتے۔ سر میں ہر وقت درد رہتا۔ طبیعت میں چڑچڑا پن بڑھ جاتا۔
ہمارے ہاں ایک دن آئے تو دیکھا ان کی ایڑیوں میں گہرے چھید پڑے ہیں۔ تلوے اتنے سرخ تھے کہ دور سے دیکھ کر عجیب لگتا تھا۔ انہوں نے آتے ہیں پاؤں ٹھنڈے پانی سے دھوئے اور پنکھے کے قریب بیٹھ گئے۔ ہماری ملازمہ اس وقت مہندی گھول رہی تھی۔ میں نے کہا تھوڑی سی مہندی تلوے پر لگوا لیجیے، ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ پہلے تو انہوں نے گھور کر دیکھا پھر خاموش ہوگئے۔ ملازمہ نے پاؤں کے دونوں تلوؤں پر مہندی کا گاڑھا لیپ کر دیا۔ حیران کن بات تھی 10 منٹ ہی میں ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ گھنٹہ پھر بعد انہوں نے پاؤں دھوئے اور کہنے لگے مہندی لگا کر ایسا محسوس ہوا جیسے پورے جسم میں ٹھنڈ اور سکون کی لہر دوڑ گئی ہو ۔ اتنا آرام تو مجھے دوا کھا کر بھی نہیں ملتا ۔
مہندی ایک عام ملنے والی چیز ہے۔ لوگ اسے شوقیہ اپنے گھروں میں لگاتے ہیں۔ چھ سات فٹ لمبے اس پودے میں سال بھر میں دو دفعہ پھول آتے ہیں، موسم برسات اور سردی کے موسم میں۔ ان کے پتے تمام سال ملتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ان پر خزاں نہیں آتی۔ سدا بہار پتے انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں۔ ان کا لاطینی نامInermis Lawsonia ہے۔ اردو، پنجابی، سرائیکی، ہندی میں مہندی، عربی فارسی میں حنا، بلوچی میں پنی کے نام سے مشہور پودا ہے۔ مہندی رنگ ہی نہیں لاتی بلکہ بہت سے امراض میں شفا بھی دیتی ہے۔ ہاتھ پاؤں کی جلن کے لیے مفید ہے۔ یہ خون کو صاف کرتی ہے اور بہت سے جلدی امراض دور کرتی ہے ۔
گرمی سے سر میں درد ہو تو سر میں مہندی لگانے سے دور ہو جاتا ہے۔ گرمی کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو جائیں تو مہندی کا ہلکا لیپ آنکھوں کے چاروں طرف لگانے سے آرام آ جاتا ہے۔ جسم پر گرمی کی وجہ سے دانے نکل آئیں تو مہندی لگانے سے ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ گرمی دانے بھی دب جاتے ہیں۔ جن لوگوں کو نیند نہ آتی ہو، بے خوابی کے مریض ہوں، انہیں چاہیے کہ مہندی کے پھول جمع کر کے تکیہ بنالیں۔ یہ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سونے اور مہندی کا تیل سر میں لگانے سے بے خوابی دور ہو جاتی ہے۔ سردی کے موسم میں بزرگ نمازیوں کو عموماً بوائی پھٹنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ وضو بار بار کرنے سے پاؤں پھٹ کر سخت تکلیف دیتے ہیں۔ ایسے میں مہندی کے پتے باریک پیس کر دو چار مرتبہ لگانے سے آرام آ جاتا ہے ۔