ہر ماں کو بچے کی صحت اور اس کی پرورش کے حوالے سے ابتدائی معلومات سے آگاہی حاصل ہونی چاہیئے
لاہور (روزنامہ دنیا ) پیدائش کے بعد ہسپتال سے بچے کو گھر لے جانے سے پہلے اس کی آئندہ دیکھ بھال کے متعلق تمام ضروری معلومات ہسپتال کی ڈاکٹر اور نرسوں سے حاصل کر لینا چاہیے۔ ہر ماں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچے کو کیسے نہلائیں، کس طرح اس کی صفائی کا خیال کریں، بچے کو کیا اور کس طرح کھلائیں پلائیں۔ یہ ضروری ہے کہ بچے کے سب ہی برتن گھر کے دوسرے برتنوں سے الگ رکھیں جائیں۔ بچے کو نہلانے کے لیے ایک چھوٹا سا پلاسٹک کا ٹب ہونا چاہیے۔ بچے کا نہانے کا سامان اور تمام دوسری چیزیں مثلاً کپڑے، تولیے، صابن، پوڈر الگ رکھنا چاہیے اور بچے کے علاوہ اور کسی کو بھی انہیں استعمال کرنے کی اجازت نہ دینا چاہیے۔
بچے کو انفیکشن کا اثر بہت جلد ہو جاتا ہے۔ پھر بچے کو ملنے آنے والے لوگ الگ مسئلہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک بچے کو گود لینا اور چومنا چاہتا ہے۔ ماں کو چاہیے وہ لوگوں کو بچہ دور سے دکھائے۔ بعض نوزائیدہ لڑکوں کے کولہوں پر سیاہی مائل دھبے ہوتے ہیں۔ یہ سیاہی مائل نیلے دھبے بالکل فطری اور معمولی چیز ہیں اور اس معاملے میں کسی تشویش کی ضرورت نہیں۔ عام طور پر یہ دھبے کولہے پر ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار سامنے کی طرف بھی ہوتے ہیں لیکن ان سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور یہ خودبخود زائل ہو جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں فکر مند نہ ہونا چاہیے۔ نوزائیدہ بچے پیدائش کے ابتدائی چند دنوں میں سیاہی مائل ہرا پاخانہ کرتے ہیں۔ اس کو طبی اصطلاح میں میکونیم کہتے ہیں۔ یہ اصل میں پیدائش سے پہلے کا جمع شدہ فضلہ اور رطوبتیں ہوتی ہیں جو پیدائش کے چند دنوں میں خارج ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ ان پاخانوں کا ہراپن کم ہو جاتا ہے۔ اور یہ زردی مائل ہوتے ہیں۔
یہ عبوری دور ہوتا ہے اور ان پاخانوں کو عبوری پاخانے کہا جاتا ہے۔ اس دوران بچے کو ڈھیلے پاخانے بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں۔ اگر ان پاخانوں میں پانی زیادہ ہو اور یہ پھٹے پھٹے ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن محض پاخانے کے رنگ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خاص طور پر ابتدائی چند دنوں کے پاخانوں کے رنگ سے۔ اگر بچے کا نال جھڑنے کے بعد بھی رطوبت خارج ہوتی رہے تو اس کا کیا کرنا چاہیے؟ بچے کے نال کو قطعاً ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ نال سوکھ کر جھڑ جانے کے بعد ٹنڈی کو نہ چھیڑنا چاہیے۔ اگر رطوبت خارج ہوتی نظر آئے تو اس پر کچھ لگانے کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ نوزائیدہ بچے کے جسم میں خون کے سرخ ذرات کی تعداد خاصی بڑھی ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچے کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے بچے کو ماں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لال ذرات آکسیجن کو بچے کے بدن میں پہنچاتے ہیں۔
بچے کی پیدائش کے بعد اتنی بڑی تعداد میں ان سرخ ذرات کی ضرورت باقی نہیں رہتی لہٰذا وہ ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ بچے کا جگر اس بڑھے ہوئے کام کو انجام نہیں دے پاتا اس لیے اس کا نتیجہ یرقان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ یرقان بچے کی پیدائش کے تیسرے دن ظاہر ہو سکتا ہے اور ساتویں سے دسویں دن تک خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس یرقان میں بچے کی بھوک یا کھلواڑ پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔ اگر بچہ سست نظر آئے اور دودھ بھی ٹھیک سے نہ پیئے تو اسے فوراً ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یرقان انفیکشن کے سبب تو نہیں ہے۔ یرقان کے دوسرے اسباب میں انفیکشن یا بعض پیدائشی حالتیں جو حمل کے دوران کارفرما رہی ہوں، شامل ہیں۔
اگر ماں کو دوران حمل یرقان ہو جائے تو بچہ یرقان زدہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ماں کو دوسرے امراض لاحق رہے ہوں جن کے سبب بچہ یرقان کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں اور بچے کے خون کے اجزائے ترکیبی میں فرق کے سبب بھی یرقان ہو سکتا ہے۔ اگر کسی بچے کو پیدائش کے 48 گھنٹوں کے اندر یرقان ہو جائے تو اسے فوراً ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ 48 گھنٹے والا یرقان قدرتی اور بے ضرر ہو سکتا ہے جبکہ اس سے قبل ہونے والا یرقان انفیکشن کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا مناسب ہے۔