گوادر: زلزلے کے خطرات کا پتہ لگانے کیلئے تحقیق

Published On 11 Feb 2018 05:10 PM 

گوادر: (دنیا نیوز) تقریباً 70سال قبل ایک بڑے زلزلے نے پاکستان کے جنوبی ساحلی علاقے مکران کی کھائی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اگلی مرتبہ اگر ایسی کوئی تباہی آئی تو اس سے مکران کے ارضی منظر نامے کے علاوہ بہت کچھ متاثر ہو سکتا ہے۔

مکران کی اس کھائی پر دو ٹیکٹونک پلٹیں ملتی ہیں جو کہ پاکستان کے بندرگاہ گوادر کے قریب ہیں، جہاں جغرافیائی سیاست، تیل اور ڈپلومیسی ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔

یہ بندرگاہ چین کو 40 سالہ لیز پر دی گئی ہے۔ اس جغرافیائی پٹی پر کوئی ممکنہ تباہی ایشیا کے راستے چین کی افریقا اور یورپ کے ساتھ تجارت بحال کرنے کے عزائم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے سائنسدانوں کی ٹیم اس کھائی کا سروے اور بندرگاہ پر منڈلانے والے خطرات کا تعین کر رہی ہے۔

یہ کھائی بحیرہ عرب کی ایسی پٹی پر واقع ہے جو کہ زلزلے کا متحرک علاقہ ہے جہاں ایک ٹیکٹونک پلیٹ دوسری کے نیچے سے کھسک رہی ہے۔ اس پٹی پر آخری بڑا زلزلہ 1945ء میں 8.1 کی شدت سے آیا تھا، جس کے نتیجے میں سونامی سے ایران، پاکستان، عمان اور بھارت بری طرح متاثر ہوئے اور چار ہزار سے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے۔

گزشتہ سال اس خطے میں 6.3 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ نقصان کے باوجود اس پٹی کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ کیا گوادر کو بھی ہامبانٹوٹا بندرگاہ کی طرح چھوڑ دیا جائے گا؟ چین پاکستان کو کیوں قرضے دے رہا ہے، اس معاشی راہداری سے متعلق خدشات کو ہوا دے رہے ہیں؟

چینی یونیورسٹی ہانگ کانگ کے ماہر یانگ ہونگ فینگ کے مطابق مکران کے سمندری علاقے میں بہت کم سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں۔ کئی اہم سائنسی سوالوں کا جواب تلاش کرنا ابھی باقی ہے۔ ان کی تحقیق سے اس پٹی سے متعلق معلومات میں اضافے کے علاوہ حاصل ہونیوالے اہم ڈیٹا سے خطرات کم کرنے میں مدد ملے گی۔

سائنسدانوں کے مطابق اصل تلاش سڈکشن زون کو بہتر طور پر سمجھنے کی ہے جو کہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کیونکہ اس میں کئی کلومیٹر موٹی نرم گارے کی تہہ ہے۔ جواب تلاش کرنے کیلئے دو مختلف ملکوں کے 40 محققین گزشتہ ماہ سے تجرباتی جہاز پر سوار ہیں اور زیرِ سمندر زمینی ڈھانچے کی سکیننگ کیلئے مختلف اوزار استعمال کر رہے ہیں۔

یہ تحقیق جنوبی چین کے انسٹیٹیوٹ آف اوشیانولوجی گوانگژو اور پاکستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے ماہرین مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔

این آئی او کے آصف انعام کے مطابق اس تحقیق کیلئے فنڈز کا بڑا حصہ چینی حکومت کے ادارے چائنا اکیڈمی آف سائنسز نے فراہم کیا ہے۔ انعام کا کہنا ہے کہ یہ اطلاعات اور کوائف ایک مہم کے دوران جمع کئے گئے جو کہ ساحلی علاقے کو ترقی دینے والوں اور منصوبہ بندوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

گوادر بندرگاہ کے نزدیک زلزلے کا خطرہ دونوں ملکوں کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ اس پورٹ کی سہولت سے چین کو ایک ایسے بحری راستے تک رسائی مل گئی جہاں دنیا کا 40 فیصد تیل پایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ 62 ملین ڈالر چین پاک اکنامک کاریڈور کا مرکز ہے۔ سی پیک کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ کا چینی علاقہ زنجیانگ سے رابطہ قائم ہوا ہے۔ یہ اقتصادی راہداری بھی بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ پیش قدمی جیسے اہم پروگرام کا حصہ ہے۔

ایک وسیع بنیادی ڈھانچہ اور تجارتی پروگرام کے توسط سے چین کے اس منصوبہ کو بیرون ملک بڑی شہرت ملی ہے۔ ذرائع کے مطابق پہلے جبوتی اور اب پاکستانی بندرگاہ گوادر کے ذریعے چین کو سمندر پار بحری اڈوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔

جنوبی ایشیا کے بارے میں ولسن سینٹر کے امریکی تھنک ٹینک کے ایک سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کگلیمان کا کہنا ہے کہ بہت کچھ داﺅ پر لگا ہوا ہے، اگر یہ بندرگاہ پوری طور پر ترقی پا کر بھرپور طریقے سے آپریشنل ہو جائے تو یہ پاکستان کے لئے ایک اہم اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس سلسلہ میں اپنے قریبی دوست چین پر بھرپور اعتماد رکھتا ہے، لیکن کگلیمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ منفی تاثر ہے کہ کوئی زلزلہ یا سونامی بندرگاہ کے ترقیاتی عمل کو متاثر کر سکتا ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی وجہ سے بندرگاہ کا حقیقی کام محدود پیمانے پر ہی جاری ہے۔

ابھی تک پاکستان نے کسی ممکنہ قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے کوئی ممکنہ یا عمومی حل تجویز نہیں کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں اس کے وسائل اور اہلیت ناکافی ہے۔ کگلیمان کا مزید کہنا ہے کہ اس امر پر یقین کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں کہ کسی شدید قسم کے زلزے کے جھٹکے گوادر کے لئے واضح طور پر اور موجودہ حالت میں بھی خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔

گوادر پورٹ پر ترقیاتی عمل نے بھارت میں بے چینی پیدا کی ہے، بالخصوص ان رپورٹس سے کہ گوادر ہی چین کے دوسرے غیر ملکی فوجی اڈے کا مقام ہو گا۔ کگلیمان کہتے ہیں کہ چین، پاکستان اور بھارت تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ خیر اس کا مطلب حقیقی تصادم نہیں، چین اس خطے میں اور بالخصوص پاکستان میں جوں جوں اپنی سرگرمیاں بڑھائے گا تناؤ کا گراف بلند ہو گا۔ اگر چین نے اب تک کی خبروں کو درست ثابت کرتے ہوئے گوادر میں بحری اڈا بنایا تو بھارت میں تناؤ بڑھے گا۔

شنگھائی کی فودان یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ڈائریکٹر ژانگ جیاڈونگ کہتے ہیں کہ چین کا فوکس بھارت پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے پاکستان سے اپنے تعلقات مستحکم کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور مشترکہ منصوبوں کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔

ژانگ جیاڈونگ کہتے ہیں بھارتی قیادت یہ محسوس کرتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو اس کی بات سننی چاہیے، اس کے خدشات کو اہمیت دینی چاہیے اور اگر چین بھی بھارت کے حوالے سے متفکر ہو گیا تو پھر وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔