لاہور: (روزنامہ دنیا) آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ گرمیوں کی آمد کے ساتھ جوں جوں سورج تیز ہونے لگتا ہے، میں آپ کی مدد کے لیے بازار میں آ جاتا ہوں۔ یوں تو سب پھل اچھے ہوتے ہیں، لیکن گرمیوں کے موسم میں میری زیادہ قدر ہوتی ہے، کیونکہ میں اس موسم کی سختیوں اور تکلیفوں کو دور کرنے میں آپ کی بڑی مدد کرتا ہوں۔
میرا ذائقہ اور خوشبو سب کو بھاتی ہے۔ پاکستان میں میری کئی قسمیں کاشت ہوتی ہیں، زرد، گہرا سرخ، سفید سبز۔ سب کے اپنے اپنے رنگ اور مزے ہوتے ہیں۔ کوئی اتنا میٹھا کہ لب بند ہو جائیں، کوئی ہلکی مٹھاس والا اور کچھ بالکل پھیکے۔ لیکن فائدہ سب سے ہوتا ہے۔ میری کاشت عام طور پر دریاؤں اور نالوں کے کنارے ہوتی ہے۔ یہاں کی زمین میں میری جڑیں دور تک جا کر صاف ستھرا پانی پی کر بڑھتی اور پھلوں میں رنگ، خوشبو اور ذائقہ پھرتی رہتی ہیں۔
میرا شمار سستے پھلوں میں ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں تو ڈھیروں خربوزہ کھایا جاتا ہے۔ ہاں شہروں میں مہنگا بکتا ہوں، لیکن میرے فائدے میری قیمت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ میری دو انواع سردا اور گرما بڑی اور وزنی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت میٹھی بھی ہوتی ہیں۔ مجھ میں کافی غذائی اجزا ہوتے ہیں۔ مجھے پابندی سے کھائیے۔ اس سے آپ خود کو تازہ دم بھی محسوس کریں گے۔
طبی لحاظ سے میں پیشاب آور ہوں۔ اس لیے گردوں کے مریضوں کے لیے مفید ہوں۔ خون صاف کرتا ہوں اور مثانے سے پتھری نکالنے میں بھی مفید ہوں۔ میرے چھلکوں سے ایک مفید نمک بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ نمک خربوزہ کہلاتا ہے۔ اسی طرح میرے چھلکوں کو پانی یا عرق گلاب میں پیس کر چہرے پر لیپ کرنے سے رنگ صاف ہوتا ہے۔
اکثر اوقات پیشاب میں جلن کی شکایت ہو جاتی ہے۔ گرمیوں میں خاص طور پر یہ تکلیف ہو تو میرے کھانے سے یہ تکلیف دور ہو سکتی ہے۔ میرے استعمال کا بہترین وقت سہ پہر کا ہوتا ہے۔ میرے باریک ٹکڑوں کے ساتھ برف کا چورا، دودھ، بالائی اور شکر ملا لینے سے عمدہ میٹھی ڈش تیار ہو جاتی ہے۔
میرے بیجوں کو خاص طور پر شہروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ بیج بہت مفید ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے بھی مثانہ، گردے اور آنتیں صاف ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہیں چھیل کر مغز پیس کر لیپ کرنے سے چہرے کی رنگت نکھرتی ہے۔ انہیں کھانے سے گلے کی خشکی اور خراش بھی دور ہوتی ہے۔ معالجین بتاتے ہیں کہ میرے بیجوں کے مغز کے استعمال سے دماغ کو بھی طاقت ملتی ہے۔ مجھ میں پروٹین، نشاستہ، کیلشیم کے علاوہ فولاد، تانبا، حیاتین الف، ب اور ج بھی ہوتا ہے۔
تحریر: افشاں خان