آج بھی چین کے اکثر دیہاتوں میں مہمانوں کی تواضع حشرات سے کی جاتی ہے جن کا مردہ ہونا لازمی نہیں ہے۔
لاہور: (ویب ڈیسک) چینی لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ روئے زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کھا لیتے ہیں۔ یہ مفروضہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ چینی لوگوں نے 1959ء سے 1961ء تک سنگین قحط دیکھا ہے جس کے دوران انہوں نے سب کچھ کھانا شروع کیا۔
اس قحط کے دوران انہوں نے ایک دوسرے کا خیال کرنا بھی سیکھا۔ ان تین سالوں میں چینی ثقافت میں کچھ ایسی چیزیں بھی شامل کی گئیں جن کا ابھی تک دھیان رکھا جاتا ہے۔ اب بھی اگر آپ کسی چینی سے ملیں تو وہ نی ہائو کے بعد کیا آپ نے کھانا کھایا ہے؟، ضرور پوچھتا ہے۔
قحط کے دوران چینی لوگ جب دوسرے سے ملتے تھے تو یہ سوال ضرور پوچھتے تھے تاکہ اگر کسی نے کھانا نہیں کھایا تو وہ اسے کھانا کھلا سکیں۔
اسی طرح مہمان اپنے سامنے پیش کی گئی مچھلی کا صرف ایک طرف کا گوشت کھاتے تھے، وہ مچھلی کو پلٹ کر دوسری طرف کا گوشت میزبانوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔
جدید چائنہ میں لوگ بہت تیزی سے امریکی تہذیب اپنا رہے ہیں۔ اب کسی دور دراز گائوں میں ہی عجیب و غریب کھانے دیکھنے کو ملتے ہیں وگرنہ بڑے بڑے شہروں میں کافی خوش شکل اور خوش ذائقہ کھانا ملتا ہے۔
یہ حشرات خاص درختوں کی جڑوں میں پالے جاتے ہیں۔ جب یہ زمین کی سطح سے اوپر اڑنا شروع ہوتے ہیں تو ان کو کھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ذیل میں دی گئی تصویر میں نظر آنے والا یہ پکوان بھیڑ کے خون سے تیار کیا جاتا ہے۔ بھیڑ کے خون کو جما کر قتلوں کی صورت میں کاٹا جاتا ہے اور پھر ان قتلوں کو مختلف سبزیوں کے ساتھ ملا کر یہ پکوان تیار کیا جاتا ہے۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایک مارکیٹ وانگفوجنگ کے نام سے ہیں۔ اس مارکیٹ میں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے مختلف حشرات بار بی کیو کیےجاتے ہیں۔ سیاح اس مارکیٹ کا لازمی دورہ کرتے ہیں۔
ایڈونچر کے شوقین سیاحوں کے لیے وانگفوجنگ ایک بہترین جگہ ہے جہاں وہ عجیب و غریب کھانے تناول کرسکتے ہیں۔