سعودی خطاط کے فن پاروں کی لندن میلے میں نمائش

Last Updated On 11 September,2018 11:42 am

لندن (نیٹ نیوز ) سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون آرٹسٹ لندن ڈیزائن میلے 2018ء میں عربی زبان میں اپنے منفرد فن پاروں کے ساتھ شرکت کررہی ہیں۔یہ ڈیزائن میلہ ہر دوسال کے بعد منعقد ہوتا ہے اور اس مرتبہ ا س میں چالیس سے زیادہ ممالک اور شہروں کے فن کار شرکت کررہے ہیں۔

لندن میں واقع سمرسٹ ہاؤس میں فن پاروں کا یہ نمائشی میلہ 4 ستمبر کو شروع ہوا تھا اور 23 ستمبر تک جاری رہے گا۔ اس میں شریک فن کاروں نے اپنی اپنی زبانوں میں تجریدی آرٹ کے نمونے نمائش کے لیے پیش کیے ہیں۔ لندن میں جاری اس نمائش میں سعودی عرب سمیت صرف پانچ عرب ریاستیں شریک ہیں۔

اس نمائش میں شریک سعودی فن کارہ لولوہ الحمود نے العربیہ انگریزی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ملک کے ثقافتی ورثے اور تہذیب کا نتیجہ ہوں۔ مجھے ایک ایسی مسلم سعودی خاتون ہونے پر فخر ہے جس کا علم سیکھنے اور دنیا دیکھنے کا سفر ہنوز جاری ہے۔

انہوں نے بتایا میں نے بہ طور آرٹسٹ فن کا اپنا ایک طرز تخلیق کیا ہے۔ میں اپنے خاندان اور ملک کی بہت زیادہ ممنون ہوں۔ میں ایک با مقصد پیغام کی تخلیق کے لیے خود پر ایک بھاری ذمے داری محسوس کرتی ہیں۔ لولوہ الحمود کا کہنا تھا کہ اس دو سالہ نمائش میں ان کی شرکت اجتماعی مسلم ثقافت کی نمایندگی کی بھی آئینہ دار ہے لیکن انہوں نے اپنے فن پاروں میں اس مسلم ثقافت کا اعادہ نہیں کیا ہے بلکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئےاپنا جدید طرز وضع کیا اور اپنے فن پاروں کو مقامی اور بین الاقومی سطح پر ملاحظے کے لیے پیش کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مختلف ذرائع اور میڈیا سے تعلیم حاصل کی اور سیکھا ہے۔اب وہ اپنے پیش رو خطاطوں اور آرٹسٹوں کے کام کے اعادے سے احتراز کرتے ہوئے اپنا ایک منفرد کام پیش کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے اس بات پر بھی فخر کا اظہار کیا کہ انہیں اس تمام کام میں شاہ عبدالعزیز مرکز برائے عالمی ثقافت کے إثراء پروگرام کا تعاون حاصل ہے۔


انہوں نے اپنے کام کے پیچیدہ ڈیزائن کے پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ خطاطی اور خوش نویسی کا وقت کے ساتھ ارتقاء ہوا ہے۔اس کا دماغ میں محفوظ تصاویر اور حسیات سے بھی تعلق ہے۔ تحریر کی جمالیات کیا پڑھا جاسکتا ہے اور کیا پڑھنے کے قابل نہیں کے مابین مختلف ہوسکتی ہے۔ خطاطی کا فن دراصل آرٹ کی ایک ایسی شکل ہے جو اسلامی فنون کے اہرام میں بلندی پر واقع ہے۔اس فن نے ان تمام تہذیبوں کے اثرات قبول کیے ہیں جہاں جہاں اس کا ارتقاء ہوا تھا۔