لاہور: (سپیشل فیچر) انسان نے اپنی ترقی اور بقاء کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنا سیکھا اور یہ مدد کسی معاہدے یا سوشل کانٹریکٹ کے بغیر ناممکن تھی۔ ارسطو نے بھی سماجی نظام کو چلانے کے لئے آئینی ڈھانچے اور ایک نظام کے قیام کو ناگزیر تقاضا قراردیا ہے۔ یہ تو انسانوں کی بات ہے، جنگل کا نظام کیسے چل رہا ہے؟
ہم روز سنتے ہیں کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے، اگر ایسا ہی ہے تو یہ بادشاہ اپنے جنگل کا نظام کیسے چلاتا ہے؟ اس نے کوئی نظم و ضبط قائم کر رکھا ہے یا اس کی مرضی کے بغیر ہی چل رہا ہے؟
اگر اس کی مرضی کے بغیر چل رہا ہے تو پھر وہ جنگل کا بادشاہ کیسے ہو گیا؟ ہم نے یہ بھی سوچا کہ جنگل میں تو بے شمار شیر رہتے ہیں۔ بادشاہت کو لے کر ان میں کوئی جھگڑا کھڑا ہوتا ہے یا نہیں؟
کیا وہ ایک دوسرے کی بادشاہت کو مان لیتے ہیں یا لڑائی جھگڑے میں ہی زندگی گزر جاتی ہے؟ پھر جنگل میں تو انگنت چرند پرند اور حیوان رہتے ہیں، وہ آپس میں لیڈر شپ کا چناؤ کیسے کرتے ہیں یا ان کی زندگی قیادت کے بغیر ہی گزر رہی ہے؟
ان سب سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں نیشنل جیوگرافی‘‘ سے رجوع کرنا پڑا۔ اس حوالے سے برائن ہینڈ ورک (Brian Handwerk) کی تحقیق کا عنوان ہے، حیوان اپنی قیادت کا چنائو کیسے کرتے ہیں، درندگی سے جمہوریت تک‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان دنوں جب امریکہ میں صدارتی انتخابات کا چرچا ہے تو کیوں نہ ہم چیونٹیوں سے لے کر دیگر حیوانات کی طرز زندگی پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔ شہد کی مکھیوں سے لے کر ڈالفن تک، اور ڈالفن سے لے کر ہاتھی اور شیر تک، وہ کس طرح ایک لیڈر کے زیر سایہ اپنی منظم زندگی گزارتے ہیں‘‘۔
جہاں تک چمپنزیوں کی قیادت کا تعلق ہے تو یہ اپنی لیڈر شپ کا چناؤ کرتے وقت اپنی طاقت اور غول کی تعداد کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ بڑے غول کی صورت میں زیادہ طاقت ور لیڈر کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اپنے لیڈر کا چناؤ بذریعہ طاقت کرتے ہیں۔ آئو، میدان میں لڑ لو، جو جیت گیا وہی سکندر! لیڈر بننے کی کوشش میں یہ درندگی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔
لیڈر چمپنزی کی شخصیت‘‘ بھی پرکشش، قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ہونا چاہیے۔ کبھی کبھار یہ مل جل کر مخلوط‘‘ لیڈر شپ بھی بنا لیتے ہیں، یعنی نظام چلانے کے لئے کئی چمپنزی مل جل کر قیادت کرتے ہیں۔
ان کا لیڈر ہی خوراک کی تقسیم کا نظام بھی قائم کرتا ہے۔ دیگر وسائل کی تقسیم کے فیصلوں میں بھی لیڈر کی سنی جاتی ہے۔ لیڈر اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ کون سا چمپنزی کس سے شادی‘ ‘ کرے گا۔
جیون ساتھی چننے کا فیصلہ چمپنزی اپنی مرضی سے نہیں کرتا۔ تاہم قیادت‘‘ کے اختیارات مختلف ممالک میں مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔کئی ممالک میں چمپنزی مادہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے چمپنزی اس کے بچوں کو خوب پیار کرتے ہیں۔
شہد کی مکھیاں کئی فیصلے بذریعہ طاقت کرتی ہیں۔ سب سے پہلے کارکن مکھیاں چند شہد کی مادہ مکھیوں کی خوب خدمت کرتی ہیں انہیں کھلاتی پلاتی ہیں، پھر وہ آپس میں جنگ کرتی ہیں۔ان درجن بھر مکھیوں میں سے جو زندہ بچتی ہے وہی ملکہ بنتی ہے۔ تاہم یہی مکھیاں چھتے کی تبدیلی اور نئے مقام کے فیصلے کے لئے الیکشن‘‘ کراتی ہیں جس جگہ کے حق میں زیادہ مکھیاں بھنبھنائیں ، وہیں نیا چھتہ بنا لیا جاتا ہے۔
جنگل کا بادشاہ شیر کیسے لیڈر چنتا ہے؟ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ شیروں میں کوئی لیڈر نہیں ہوتا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ایک غول میں کوئی ایک لیڈر بن سکتا ہے۔جس کی بات مانی جاتی ہے۔ شیروں میں یہ نر ہوتا ہے۔بعض محققین کے مطابق 13سے 30تک شیر مل جل کر ایک خاندان کی طرح آپس میں حفاظت سے رہتے ہیں۔ ان میں ماں ، باپ، انکل، بھتیجے ۔ ۔۔ سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہر وقت ایک ساتھ نہیں رہتے، پانی اور خوراک کی تلاش میں بھی شیر اپنے غول سے الگ ہو جاتے ہیں۔
لگڑ بگڑ کتوں کی ایک نسل سے ہیں، ان میں موروثی بادشاہت قائم ہے یعنی ملکہ کی بیٹی بھی ملکہ ہی بنے گی۔ لگڑبگڑ تجربے او ر علم کو اہمیت دیتے ہیں،یہ اپنی قیادت کے چنائو کے وقت جنس کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ وہ مادہ کا خیال رکھتے ہوئے عمر رسیدہ مادہ کو قیادت سونپ دیتے ہیں۔ اور یوں ایک ماں قیادت دوسری ماں کو سونپ دیتی ہے۔زیادہ تر قیادت وہی کرتی ہیں جن کی امی‘‘ بھی ملکہ رہ چکی ہوںورنہ جنگ‘‘ کے ذریعے بھی کوئی اپنی لیڈر شپ منواسکتی ہے۔ اس کا راستہ بھی کھلا رہتا ہے۔ لڑائی جیتنے والی کو لیڈر یعنی ملکہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
لگڑ بگڑ کا گروہ عام طور پر 30ممبران پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس سے بڑا گروہ بھی بن سکتا ہے۔کوئی بھی لگڑ بگڑ‘‘ کسی بھی لیڈر‘‘ کو چیلنج کر سکتا ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
سٹکل بیک فش ایک قسم کی خار پشت مچھلی کو کہا جاتا ہے، یہ دیکھنے میں کافی خوفنا ک ہوتی ہیں، اسی لئے ان میں قائد کے چنائو کا نظام بھی سادہ سا ہے، جو بھی خوش شکل ہو گی وہی قیادت کی بھی اہل ہو گی۔یعنی خار پشت مچھلی میں لیڈر شپ ان کے حسن سے منسلک ہے۔ بد صورت خار پشت مچھلی کبھی لیڈر نہیں بن سکتی۔کیلی فورنیا میں حیوانات کے طرز زندگی کو سٹڈی کرنے والی جینیفر سمتھ کا کہنا ہے کہ کچھ حیوانات اپنی قیادت بوڑھوں یا مادہ کو سونپ دیتے ہیں ‘‘۔
یعنی ان حیوانات کی پہلی ترجیح یا تو اپنی مادہ ہوتی ہے یا پھرعمر رسیدہ جانور۔انہوںنے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دودھ پلانے والے جانور یعنی میملز اپنی قیادت کے چنائو میں تجربہ اور علم‘ کو فوقیت دیتے ہیں۔ جس کی عمر زیادہ ہو گی وہی حیوان اپنے غول میں زیادہ تجربہ کار اور علم والا سمجھا جاتا ہے۔ میملز عمومی طور پر مادہ کو قیادت سونپتے ہیں۔ ان میں ہاتھی بھی شامل ہیں ۔ افریقہ کے جنگل میں ہاتھیوں کے غول کی قیادت سب سے بوڑھی مادہ کے سپرد ہوتی ہے۔
کینیا کے جنگلوں میں ہاتھیوں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ 60 برس کی مادہ اپنے ننھے بچوں اور دوسرے ہاتھیوں کو شیروں سے بچانے کے لئے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ وہ اپنی یادداشت کی مدد سے انہیں ایسی جگہ لے جاتی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ خوراک مل سکتی ہے۔ اور جہاں ان کی حفاظت بھی آسان ہو۔یہ ننھے ہاتھیوں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ سمتھ کا کہنا ہے کہ ہاتھی با وقار قیادت کو اہمیت دیتے ہیں۔
اسی کی لیڈر شپ قائم رہتی ہے جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اپنے غول کو فائدہ بھی پہنچائیں۔ یعنی نکھٹو قسم کی مادہ کو قیادت سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
مچھلیوں میں بھی لیڈرشپ موجود ہوتی ہے،سب سے بوڑھی وہیل برسوں تک اپنے ساتھیوں کوساتھ لے کر چلتی ہے۔ وہ اپنے گروپ کو ایک خاندان کے طور پر لیتی ہے، یعنی وہیل میں ایک ساتھ رہنے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ایک تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہیل 50 برس کی عمر کے بعد بچے نہیں دیتی۔
اسی عمر میں اس میں قائدانہ صلاحیتیں جاگ جاتی ہیں۔یہ شکار میں بھی اپنے ساتھیوں کی مدد کرتی ہیں، انہیں اس جگہ پر لے جاتی ہیں جہاں بہترین شکار مل سکتا ہے۔