بلند ترین ’’شاہراہ ریشم‘‘ کیسے بنی؟

Published On 02 February,2021 09:29 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر دنیا کی بلند ترین شاہراہ بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا کیونکہ نامور عالمی تعمیراتی کمپنیاں شاہرہ ریشم بنانے سے عاجز رہیں۔

شاہراہ ریشم چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہوئی پاکستان میں ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور ہزارہ سے ہوتی ہوئی جی ٹی روڈ پر حسن ابدال سے ملتی ہے۔

پاکستان میں ضلع ہزارہ سے شروع ہو کر چین کی سرحد کے قریب سست کے مقام تک جاتی ہے۔ اس سے آگے خنجراب تک بے آباد، ویران، دشوار گزار اور مسلسل چڑھائی والا راستہ ہے۔

خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے۔ یہ منفرد شاہراہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی درہ خنجراب میں 4693 میٹر بلندی پر چین کے صوبہ سنکیانگ کو ملاتے ہوئے دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ کا اعزاز اپنے نام کرتی ہے۔

اسی وجہ سے یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ قدرت کا وہ کونسا حسن ہے جو اس شاہراہ کے آس پاس آپ کو نہیں ملے گا۔ اسی لیے تو دنیا اس بات پر متفق ہے کہ شاہراہ قراقرم محض ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ سطح سمندر سے 15100 فٹ بلند ہونے کی وجہ سے یہ دنیا کی بلند ترین شاہراہ ہے۔

متعدد عالمی کمپنیاں آتیں، سروے کرتیں اور ناممکن کا لیبل لگا کر واپس چلتی بنتیں بلکہ ایک دفعہ تو یورپ کی بین الاقوامی ساکھ کی ایک بہت بڑی تعمیراتی کمپنی نے اس کو چیلنج سمجھ کر اس کی تکمیل کا عندیہ دیتے ہوئے فضائی سروے بھی مکمل کر کے اچانک حسب سابق    ناممکن‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے واپسی کا راستہ ناپا۔

موسموں کی شدت، شدید برف باری، لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات، ناہموار چٹانیں اور ان جیسے بے شمار مسائل کے باوجود اس شاہراہ کا بننا ایک عجوبہ ہی تو ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔

13 سو کلومیٹر میں سے 887 کلومیٹر پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین کی حدود میں ہے۔ اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی کثرت، آبشاریں، چراہ گاہیں، چشمے اور بلند و بالا گلییشئر سمیت ہر طرح کے خوبصورت اور دل موہ لینے والے مناظر جا بجا ملیں گے۔

یہ شاہراہ کسی بل کھاتی سڑک دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کبھی دائیں اور کبھی بائیں مڑتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں صرف دریائے سندھ پر ہی موقوف نہیں دریائے گلگت ، دریائے ہنزہ ، نانگا پربت اور راکاپاشی بھی اس کے ہم سفر رہتے ہیں۔

ایک مرتبہ پاکستان آئے بلجیم کے ایک سیاح نے ٹی وی انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا،   میں نے دنیا بھر کے قدرتی حسن سے مالا مال علاقے دیکھ رکھے ہیں لیکن یہاں کے شمالی علاقہ جات اور شاہراہ قراقرم دیکھ کے لگتا ہے جیسے شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔

شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام   شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا ، پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔ تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے 62 کلو میٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے مقام پر اس شاہراہ کا آغاز ہوا جو 1978 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے شب وروز شانہ بشانہ کام کیا۔قراقرم کے سخت اور پتھریلے پہاڑوں کو چیرنے کے لئے 8ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ استعمال کیا گیا۔18 جون 1978ء کو اس کا با قاعدہ افتتاح ہوا۔ تکمیل کے دوران 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔

درہ خنجراب شدید برف باری کے سبب اکتوبر تا فروری عام طور پر بند رہتا ہے۔ چلاس ایک بڑا اور قدیم شہر ہے جہاں سے زمانہ قدیم میں تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے۔جس کی نشانیاں یہاں موجود    تھلپان‘‘ کی چٹانیں ہیں جن پر جا بجا ہزاروں سال پرانی بدھا کی تصاویر اور مختلف تحریریں کندہ ہیں۔جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بدھ مت کے عروج کے دور میں یہاں ضرور بدھ مت کا کوئی اہم مقام ہو تا ہو گا۔اس حسین وادی میں کو ہ قراقرم ،کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش ،تینوں موجود ہیں۔ان سلسلوں میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں اور تین دیو قامت گلیشئیرز بھی پائے جاتے ہیں ۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچین بھی یہیں واقع ہے۔

گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہیں پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو    نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔

تحریر: خاور نیازی