حرمِ پاک کے کبوتر کہاں سے آئے؟

Published On 01 May 2017 07:48 PM 

ان کبوتروں کا شکار کرنا جائز نہیں ہے۔ ان کے شکار یا انھیں مارنے کرنے کی صورت میں فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔

لاہور: (ویب ڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے العربیہ ڈاٹ نیٹ میں چھپنے والی دلچسپ رپورٹ کے مطابق نیلے یا سبز پروں والے یہ کبوتر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ احرام کی حالت میں یا اس کے بغیر بھی کسی طور ان کا شکار جائز نہیں ہے۔ ان کے شکار یا قتل کرنے کی صورت میں فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ ان کبوتروں کو نقصان پہنچانے کی حرمت اس امر سے وابستہ ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے۔ اس حوالے سے ایک مشہور روایت طوفان نوح کی کہانی ملتی ہے جب حضرت نوح علیہ السلام نے اس پرندے کو زمین اور اس کی خشکی کا پتہ کرنے کے لیے اسے استعمال کیا تھا۔

ایک اور روایت کے مطابق حرم پاک یا حرم مکی کے کبوتروں کی نسل کا تعلق اُن ابابیل سے ہے جنہوں نے اپنے پنجوں میں پتھر اور کنکر تھام رکھے تھے تا کہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آنے والے یمن کے بادشاہ ابرہہ کو باز رکھا جائے۔