بابری مسجد کے انہدام کو 26 سال مکمل

Last Updated On 07 December,2018 08:53 pm

اترپردیش: (دنیا نیوز) ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو چھبیس برس بیت گئے لیکن مسجد پرحملے اوربعد میں پھوٹنے والے فسادات میں ملوث انتہا پسندہندؤوں کو آج تک سزانہیں دی جا سکی۔

بابری مسجد کے انہدام 26 سال مکمل ہونے پر جمعرات کو اجودھیا سمیت بھارت بالخصوص اترپردیش کے حساس مقامات پر سخت سکیورٹی انتظامات ہیں جب کہ ایک درجن سے زائد افراد کو احتیاطی طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔ چھ دسمبر 1992ء کو ہندو تنظیموں کے ہزاروں کارکنوں نے مغلیہ دور میں تعمیر ہونے والی اجودھیا کی تاریخی بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی تعمیر رام مندر توڑ کر کی گئی تھی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بابری مسجد میں جس جگہ منبر تھا وہیں پر ہندوؤں کے مذہبی رہنما رام پیدا ہوئے تھے۔بھارتی مسلمان اس دعوے کی تردید کرتے آئے ہیں۔

مسجد کے انہدام کی برسی کے موقع پر پولیس نے اجودھیا اور اطراف میں جن لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان میں تپسوی چھاؤنی مندر کا وہ پجاری بھی شامل ہے جس نے رام مندر کی تعمیر کے لیے 6 دسمبر کو خود سوزی کا اعلان کیا تھا۔اجودھیا میں متنازع مقام اور اس کے اطراف میں سکیورٹی فورسز کے ڈھائی ہزار جوان تعینات کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب دارالحکومت دہلی سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلم اور ہندو تنظیموں کی جانب سے الگ الگ مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مسلم تنظیمیں یومِ سوگ منا رہی ہیں جبکہ ہندو تنظیموں نے یومِ شجاعت منانے کا اعلان کیا ہے۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن انداز میں مظاہرے کریں، بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر اور اس کو منہدم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے چیئرمین آفاق احمد کا کہنا ہے کہ ہم 26 برسوں سے انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیرِ نو ہوگی ایکشن کمیٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو یادداشتیں بھی بھیجی ہیں۔

جمعرات کو دہلی میں پارلیمنٹ اسٹریٹ پر بھی ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے کے متنظم ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ وہ بابری مسجد کی تعمیرِ نو چاہتے ہیں۔ڈاکٹر رحمانی کے مطابق بابری مسجد توڑے جانے کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ نے کہا تھا کہ وہاں مسجد بنائی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ وعدہ پورا کیا جائے۔ان کے بقول مسلمان چاہتے ہیں کہ بابری مسجد کے انہدام کے جن ذمہ داروں کے خلاف رائے بریلی کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں : بابری مسجد شہادت میں ملوث ہندو کا قبولِ اسلام، 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم

انھوں نے اشتعال انگیز بیانات دینے اور عدلیہ کے خلاف ماحول سازی کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا۔دوسری مسلم تنظیموں نے بھی بابری مسجد کی تعمیرِ نو کے مطالبے کے تحت دہلی اور ملک کے دیگر علاقوں میں مظاہرے کیے۔سپریم کورٹ میں بابری مسجد رام جنم مندر کے حقِ ملکیت کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ عدالت اس مقدمے جنوری کے پہلے ہفتے سے سماعت شروع کرے گی۔

موجودہ صورتحال:

5 سوبرس پرانی اس مسجد کی جگہ ایک عارضی مندر بنا ہوا ہے۔ اس کے اطراف کی تقریبا ستر ایکڑ زمین بھی حکومت نے لی ہے۔ اس اراضی میں کئی دیگر مساجد بھی ہیں اور قبرستان بھی۔ ان تک مسلمانوں کی رسائی نہیں ہے۔ عارضی رام مندر میں درشن کے لیے ہر روز ہزاروں ہندو عقیدت مند آتے ہیں۔ پورے احاطے کی سیکیورٹی پر ہر روز پچیس لاکھ روپے سے زیادہ صرف کیے جاتے ہیں۔ منہدم بابری مسجد کے اطراف کا پورا احاطہ آہنی سلاخوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اوپر خاردار تار لگے ہوئے ہیں۔


’بابری مسجد میں مورتی خود رکھی گئی تھی‘

 مصنفین نے اس رات کی منظر کشی کی ہے جب بابری مسجد کچھ ہی دیر میں مندر میں تبدیل کردی گئی تھی۔ بابری مسجد پر لکھی جانے والی ایک نئی کتاب میں دعویٰٰ کیا گیا ہے کہ انیس سو اننچاس میں جب ’معجزاتی‘ طور پر مسجد کے اندر بھگوان رام کی مورتی ’نمودار‘ ہوئی تو اس میں انہیں لوگوں کا ہاتھ تھا جو مہاتما گاندھی کے قتل کے سلسلے میں بھی شک کے دائرے میں آئے تھے۔ کتاب کے مصنف کرشنا جھا اور دھیریندر جھا ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ تفصیلی تحقیق کے بعد وہ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ انیس سو اننچاس میں بائیس اور تئیس دسمبر کی درمیانی شب ایودھیا میں مسجد کے اندر مورتی رکھنے والے لوگ کون تھے اور اس پوری کارروائی کی سازش کس نے تیار کی تھی۔

کتاب ابھی بازار میں نہیں آئی ہے لیکن اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنفین نے عینی شاہدین اور پرانے ریکارڈز کا مطالعہ کرنے کے بعد اس رات کی منظر کشی کی ہے جب بابری مسجد کچھ ہی دیر میں مندر میں تبدیل کردی گئی تھی۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس سازش میں ضلعے کے اعلیٰ ترین سرکاری افسر کے کے نائر بھی شامل تھے۔ اس کا مقصد قوم پرست تنظیم ہندو مہاسبھا کو ایک بڑی قومی سیاسی طاقت میں بدلنا تھا۔ اس رات کے مرکزی کردار بابا ابھیرام داس تھے جن کا تعلق نروانی اکھاڑے سے تھا۔ کتاب کے مطابق مورتی انہوں نے ہی رکھی تھی۔ ان کا انتقال انیس سو اکیاسی میں ہوا اور اس وقت وہ رام جنم بھومی کو آزاد کرانے والے بابا کے نام سے مشہور تھے۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ ان کے دو رشتے کے بھائی اندو شیکھر جھا اور یوگل کشور جھا بھی اس رات مسجد میں موجود تھے۔ مصنفین نے اپنی کتاب ’ایودھیا، دی ڈارک نائٹ‘ (ہارپر کولنز) میں لکھا ہے کہ اس سازش میں پہلے بابا رام چندر داس پرم ہنس بھی شامل تھے لیکن اس رات وہ اچانک ’غائب‘ ہوگئے۔ بعد میں ان کا شمار اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں کیا جاتا تھا۔

کتاب کے مطابق ابھیرام داس اور ان کے ساتھیوں نے موذن محمد اسمٰعیل کو مار پیٹ کر بھگا دیا تھا اور پھر رات بھر مسجد میں ہی بیٹھے رہے۔ اور اس وقت ہند مہاسبھا کی فیض آباد یونٹ کے سربراہ گوپال سنگھ وشارد معـجزے کا اعلان کرنے کے لیے ایک مقامی پریس میں پوسٹر چھپوا رہے تھے۔جب صبح ہوئی تو مسجد سے ’رام لیلا‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔ کتاب کا دعویٰ ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نائر چار بجے ہی ایودھیا پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے نو بجے تک لکھنؤ اطلاع نہیں کی۔ اس دوران ہندو بھکت مسجد پر پوری طرح قبضہ کر چکے تھے۔

کتاب میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ اس سازش میں ہندو مہاسبھا کے اترپردیش کے صدر مہنت دگ وجے ناتھ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جنہیں اگلے ہی دن تنظیم کا قومی جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ جب جنوری انیس سو اڑتالیس میں مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تھا تو مہنت دگ وجے ناتھ بھی ملزمان کی فہرست میں شامل تھے لیکن بعد میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔ مسجد میں مورتیاں نصب کیے جانے کے باوجود ہندو مہاسبھا قوم پرست تحریک کو مضبوط کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ کام اسّی کے عشرے میں لال کرشن اڈوانی نے کیا اور اسی تحریک کے نتیجے میں بابری مسجد انجام کار چھ دسمبر انیس سو بانوے کو مسمار کردی گئی۔

مودی کا موقف:

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے اس حوالے سے کافی مشکل ہے، اگر وہ مندر کی تعمیر کا گرین سگنل دیتے ہیں تو اپنے حامیوں کو تو خوش کردیں گے لیکن ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوجائیں گے۔

1992میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تو صرف ممبئی میں ایک ہزار افراد جان سے گئے تھے، جوابی حملوں میں مزید 257 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

96 سالہ محمد ہاشم انصاری دسمبر 1992 کی اُس صبح کو یاد کرتے ہیں جب مشتعل ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کردیا تھا، انہوں نے اپنے گھر سے مسجد کے گنبد گرتے دیکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے خلاف ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہندو تنظیمیں ایسا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں، وہ اقتدار میں ہیں اور جو چاہے کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ ریاستی انتخاب کے لیے مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی مندر کے حوالے سے کوئی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، وہ ملکی ترقی پر بات کریں گے۔ جون میں اپنی 78 ویں سالگرہ کے موقع پر نرتیا گوپال داس نے ملک کے بااثر ترین ہندو مذہبی رہنماؤں سے نجی ملاقاتیں کیں اور اپنا پیغام پہنچایا۔ ملاقات میں موجود ایک شخص کے مطابق انہوں نے پیغام دیا کہ مندر کی تعمیر کے معاملے پر مذہبی اور سیاسی موقف یکساں ہونا چاہیے، ہر شہر میں مذہبی رہنماؤں کو رام مندر کی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے۔


 بابری مسجد کے حق میں فیصلہ آیا تو شام جیسے حالات ہو جائيں گے 

 انڈیا میں ʼآرٹ آف لیونگ‘ کے سربراہ اور نام نہاد روحانی پیشوا شری شری روی شنکرنے کہا ہے کہ اگر ایودھیا تنازع میں بابری مسجد کے حق میں فیصلہ آیا تو بھارت میں شام جیسے حالات ہو جائيں گے، روی شنکر ان دنوں عدالت کے باہر بابری مسجد تنازعے کو حل کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔بابری مسجد اور رام مندر تنازعے پر روی شنکر نے کہا ہے کہ اگر ایودھیا تنازع حل نہیں ہوا تو پھر انڈیا میں شام جیسے حالات ہو جائيں گے۔انھوں نے انڈیا ٹو ڈے اور این ڈی ٹی وی کو یکے بعد دیگرے اپنے انٹرویوز کے دوران یہ باتیں کہیں۔شری شری روی شنکر نے این ڈی ٹی وی کو بتایا اگر عدالت یہ فیصلہ دیتی ہے کہ متنازع جگہ بابری مسجد ہے تو کیا لوگ اس بات کو باآسانی اور بخوشی قبول کر لیں گے؟ یہ 500 سال سے مندر کے لیے لڑنے والی اکثریتی برادری کے لیے تلخ گولی ثابت ہو گی۔ ایسے میں کشت و خون بھی ہو سکتا ہے۔

بابری مسجد کی تاریخ:

یاد رہے کہ 25 برس قبل 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو زمین بوس کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں 2 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے تھے جبکہ کچھ بتوں کو مسجد میں رکھا گیا تھا، برطانوی حکمران نے 1859 میں تنازعات کو روکنے کے لیے عبادت کے لیے حصہ تیار کیا تھا جبکہ بھارتی حکومت کی جانب سے 1949 میں اس کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔

1984 میں ہندؤوں کی جانب سے مندر تعمیر کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جبکہ دو برس بعد عدالت کے حکم پر متنازع مسجد کے دروازے ہندؤوں کی عبادت کے لیے کھول دیے گئے، جس پر مسلمانوں نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ساتھ احتجاج شروع کیا۔
2014 میں بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے سانگھ خاندان کی جانب سے ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے لیے ریلی نکالی گئی جبکہ اتر پریش کے لیے تیار کیے گئے انتخابی منشور میں بھی اس بات کا وعدہ کیا گیا۔ ان سرگرمیوں کے بعد حکمران جماعت بی جے پی کو رواں سال اتر پردیش میں بڑی کامیابی ملی جس کے نیتجے میں ادتیا ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے طور پر منتخب کیا گیا جس کے بعد مندر کی تعمیر کے معاملے کو مزید فروغ ملا۔

 واضح رہے کہ ادتیا ناتھ ایک متنازع ہندو مذہبی رہنما ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

ایودھیا تنازعہ میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنے فیصلے میں 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان برابریعنی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے خلاف 14 فریقین نے عدالت میں اسپیشل پرمیشن پٹیشن (خاص اجازت عرضی) دائر کی ہے۔


 

Advertisement