2018 کی مسلم شخصیت کا اعزاز ترک صدرطیب اردوغان کے نام

Last Updated On 28 December,2018 07:19 pm

انقرہ: (ویب ڈیسک) عالم اسلام میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کی قدرو منزلت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نائیجیریا کے ایک اخبار نے طیب اردوغان کو سال 2018 کی مسلم شخصیت قرار دیا ہے۔اخبار نے ہفتے کے روز اپنی اشاعت میں طیب اردوغان کو رواں سال کی عالمی اسلامی شخصیت قرار دیا اور انہیں اس ایوارڈ سے نوازا ہے۔

رشید ابو بکر نے کہا کہ طیب اردوغان عالم اسلام کی طاقت ور، موثر اور قابل احترام شخصیت ہیں۔ وہ عالم اسلام کے سال2018 کی معتبر شخصیت کا اعزاز اور ایوارڈ حاصل کرنے کے حق دارہیں۔ابو بکر نے کہا کہ طیب اردوغان مظلوموں کے ساتھی ہیں اور وہ پوری دنیا میں مظلوم اقوام کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی۔ وہ صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم کی جرات مند اور توانا آواز ہیں۔انہوں نے کہا کہ طیب اردوغان نے مشرقی ترکستان اور میانمار کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرکے پوری مسلم امہ بالخصوص مظلوم مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔

 طیب اردوغان کا سیاسی سفر


61 سالہ طیب اردوغان اے کے پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد سنہ 2002 میں اقتدار میں آئے۔ وہ 11 سال تک ترکی کے وزیر ا‏‏عظم رہے اور پھر سنہ 2014 میں ملک کے پہلے براہ راست صدر منتخب ہوئے۔

رواں سال جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ طیب اردوغان کی جماعت ’اے کے پارٹی‘ کو پارلیمان میں واضح برتری حاصل ہوئی جس کے بعد طیب اردوغان دوسری مدت کیلئے ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔


طیب رجب اردوغان سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں اسلامی حلقوں میں سرگرم نجم الدین اربکان کی ویلفیئر پارٹی کے رکن رہے۔سنہ 1994 سے 1998 تک فوج کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے تک وہ استنبول کے میئر رہے۔سنہ 1998 میں ویلفيئر پارٹی پر پابندی ‏‏عائد کر دی گئی۔

اگست سنہ 2001 میں عبداللہ گل کے اتحاد میں ’اے کے پی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ سنہ 2003-2002 میں اے کے پی نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور اردوغان کو وزیر اعظم بنایا گيا۔ اردوغان سنہ 2014 میں براہ راست انتخابات کے ذریعے ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔

اے کے پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل فوج چار مرتبہ سیاست میں براہ راست دخل اندازی کر چکی تھی۔ سنہ 2013 میں رجب طیب اردوغان نے اعلیٰ فوجی حکام پر اس وقت کامیابی حاصل کی جب 17 افسران کو اے کے پی کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش میں عمر قید کی سزا ہوئی۔

سینکڑوں فوجیوں، صحافیوں اور سیکولر سیاست دانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2011 میں جب 200 سے زیادہ افسروں کو حراست میں لیا گيا تو فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں نے احتجاجاً استعفے دے دیے۔ان کے ناقدین جہاں ان کی مخالفت کرتے ہیں وہیں ان کے حامی ان کی تعریف کرتے ہیں۔

 طیب اردوغان کی قبولیت کی وجوہات

اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر رجب طیب اردوغان کو پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔علاوہ ازیں جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن جامعہ، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے بھی نوازا گیا ہے۔ فروری 2004ء میں جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول اور فروری 2009ء میں ایران کے دار الحکومت تہران نے رجب اردوغان کو اعزازی شہریت سے بھی نوازا۔

سن 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوغان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترک رجب طیب اردوغان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کیک جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردوغان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو سرپرست کا نہایت شاندار استقبال کیا۔

اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010 ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار طیب اردوغان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھر اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردوغان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔ اور وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا لیکن بغاوت کی اس سازش کو تر ک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنادیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے۔