مقبوضہ کشمیر کے حق میں دنیا بھر سے اٹھنے والی انصاف پسند آوازیں

Last Updated On 26 August,2019 10:47 pm

لاہور: (تحریر: طیبہ بخاری) انتہا پسند مودی حکومت کیخلاف صرف پاکستان سے ہی نہیں دنیا بھر سے بلکہ خود بھارت کے اندر سے انصاف پسند آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں ’’ظالم‘‘ کا چہرہ بے نقاب ہو چکا۔ وادی میں قیامت کا دُکھ ہے۔ اپنے بے قصور نہتے بچوں کے غموں میں ڈوبے کشمیری ’’ظالم‘‘ کی ڈوبتی کشتی کو اُچھالا دے رہے ہیں۔’’ظالم‘‘ مظلوموں کی قربانیاں دیکھ کر بوکھلا اور سٹپٹا چکا ہے اور اب خود اپنی وکالت سے خائف ہے۔

دنیا ’’ظالم ‘‘کا چہرہ دیکھ رہی ہے اور اپنی مجرمانہ خاموشی توڑنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ شدید بوکھلاہٹ کی شکار مودی حکومت کی حالت ایسی ہے کہ ’’جائیں تو جائیں کہاں‘‘ اندر باہر ہر جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی مظلوم تاریخ کو دنیا کے کونے کونے سے’’سلام‘‘ پیش کیا جا رہا ہے۔

مودی حکومت ہو سکے تو ان لفظوں، نعروں، تحریروں، آوازوں اور جذبوں کو روک لے۔ یہ سلسلہ رُکے گا نہیں بڑھے گا اور اس کا رُخ کسی اور جانب نہیں صرف اور صرف بھارت کی جانب ہے۔

یہ حالات پیدا کئے ہیں انتہا پسند ہندو راشٹر واد نظریے نے جو صرف خود جینے اور دوسروں کا جینا حرام کرنے کی بات کرتا ہے۔

بھارت کو مجرموں کی طرح عالمی ضمیر کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنیوالا کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی کا انتہا پسند نظریہ اور ظلم پر مبنی ہندوتوا ایجنڈا ہے۔

بی جے پی نے صرف مقبوضہ کشمیر پر ہی ظلم نہیں کیا بلکہ بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کا چہرہ مسخ کیا، سیکولر امیج تباہ کر ڈالا۔

دنیا نے دیکھ اور سمجھ لیا کہ انتہا پسند ہندو راشٹرواد مودی حکومت کا نشانہ بظاہر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان ہیں لیکن اس کی زد میں آیا عالمی انصاف اور وقار کا نظام۔

آج کی تحریر میں مختصر جائزہ پیش کیا جائیگا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، لاک ڈاؤن، ظلم اور ناانصافی کو دنیا بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں اور انصاف پسند آوازوں نے کیسے روندا، ٹھکرایا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کا مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال پر خصوصی تبصرہ

برطانوی نشریاتی ادارے کے خصوصی تبصرے کے مطابق کشمیر کے مخصوص تشخص کے خاتمے سے بھارت کی چال اُلٹی پڑ گئی۔ مودی حکومت نے بھارت کے کمزور وفاقی ڈھانچے کو کاری ضرب لگا دی۔ نئے مرکزی خطوں جموں وکشمیر اور لداخ پر دلی سے براہ راست حکومت ہو گی۔

وفاق ریاستوں کے مقابلے یونین کے علاقوں کو کم خود مختاری دیتا ہے۔ بیشتر ماہرین فیصلے کو بھارت کے کمزور وفاقی ڈھانچے کو شدید دھچکے سے عبارت کر رہے ہیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے آبادی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ کشمیر جیسا اقدام بھارت کے وفاقی نظام پر بدنما داغ ہے۔ مرکز ریاستوں کے مقتدر اختیار میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دلچسپ ہوگا کہ عدالت کشمیر کے فیصلے پر قانونی چیلنجز سے کیسے نمٹتی ہے۔

سکالر ننوت چڈھا بہیرا کہتے ہیں کہ بھارت میں جمہوری اصولوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ زیادہ پریشان کن یہ ہے کسی دوسری ریاست سے ایسا ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب برطانوی جریدہ ’’گارجین ویکلی‘‘ اپنے سرورق پر مسئلہ کشمیر کا معاملہ ’’کریک ڈاؤن، بلیک آؤٹ اور اب آئندہ کیا؟ کے عنوان سے شائع کریگا۔

برطانوی جریدے کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فوری بعد دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اہلکاروں والے علاقے ’’کشمیر‘‘ میں ہر طرف خوف پھیل چکا ہے۔

ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا: اے ایف پی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 5 اگست کے بعد صرف 2 ہفتوں میں 4 ہزار کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ حراستی مراکز میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔

بیشتر کشمیریوں کو مقبوضہ وادی سے باہر قید کیا گیا۔ وادی کی خود مختاری سلب کرنے کے بعد بھارت مسلسل اس خوف میں مبتلا ہے کہ کشمیر میں اس کیخلاف بدامنی کی صورتحال نہ پیدا جائے۔

کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو ایک متنازع قانون ہے اور اس کے تحت کشمیری باشندوں کو 2 سال تک بغیر کسی الزام اور ٹرائل کے قید کیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف بھارتی حکام کی جانب سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے کہ کتنے کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ابتدائی چند دنوں میں 100 سے زائد مقامی سیاستدانوں، ایکٹوسٹس اور ماہرین تعلیم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سری نگر میں پولیس اور سیکیورٹی عملے سمیت حکومتی افراد نے بھی بے شمار کشمیریوں کی اندھا دھند گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ سری نگر میں 6 ہزار گرفتار کشمیریوں کا مختلف مقامات پر طبی معائنہ کرایا گیا۔

گرفتار شدگان کو پہلے سری نگر جیل میں رکھا گیا بعد ازاں فوجی طیاروں میں کشمیر سے باہر لے جایا گیا۔ بہت سارے کشمیری پولیس اسٹیشنز میں بھی ہیں جن کی تعداد ان 4 ہزار کشمیریوں سے الگ ہے۔

بھارت پڑوسی ممالک کو چیلنج کرتا رہتا ہے: چینی میڈیا

چین کے میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صورتحال بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکرکا دورہ چین طے شدہ تھا تاہم بہت سے مبصرین نے اسے ایمرجنسی دورہ قرار دیا کیونکہ یہ دورہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خصوصی دورے کے بعد کیا گیا۔

بھارتی وزیر خارجہ کے دورے کو ’’غیر سودمند‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ چینی حکمران جماعت کے اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق وزیر خارجہ وانگ یی نے بھارتی ہم منصب سے کہا ’’چین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی یکطرفہ اقدام جس سے مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب ہوں نہیں کیے جانے چاہئیں‘‘۔

گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ سرحدی تنازعات کے بارے میں بھارت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بھارت پڑوسی ممالک کو چیلنج کرتا رہتا ہے اور ساتھ میں اسے توقع ہے کہ یہ ممالک اس کے اشتعال انگیز رویے کو برداشت کر لیں گے۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے پر پاکستان کے جوابی اقدامات فطری عمل ہیں۔ اگر مسلمان بھارتی اقدامات کی اجتماعی مخالفت کریں تو بھارت کیلئے صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔

بھارت کے پاس سیاسی اور دیگر وسائل نہیں کہ وہ مقبوضہ وادی پر قبضہ برقرار رکھ سکے۔ حالات یہی رہے تو پاک، بھارت کشیدگی سے پہلے ہی سے موجود حساس صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔

’’6 ہزار سے زائد نامعلوم قبریں‘‘ آسٹریلوی صحافی کی چشم کشا رپورٹ

آسٹریلیا کے معروف کالم نویس سی جے ورلیمان نے مقبوضہ کشمیر میں ناانصافیوں، ظلم وتشدد اور غیر انسانی سلوک کو سوشل میڈیا پر بے نقاب کیا۔

’’مڈل ایسٹ آئی‘‘ اور’’ بائی لائنز‘ ‘کے کالم نویس سی جے ورلیمان نے ’’بھارتی قبضے کے تحت کشمیر میں زندگی‘‘ کے عنوان سے ہوشربا اعدادوشمار ٹوئٹر پر شیئر کیے۔

ان کے مطابق مقبوضہ وادی میں ہر 10 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ 6 ہزار سے زیادہ نامعلوم قبریں یا اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔

یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے ’’غائب‘‘ کیا تھا۔ اس کے علاوہ 80 ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ مسلسل ظلم وستم اور تناؤ کے باعث 49 فیصد بالغ کشمیری پی ایس ٹی ڈی نامی دماغی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن متنازع علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ ہے، ان میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔

بھارتی فورسز تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ 7 ہزار سے زیادہ زیر حراست ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ سی جے ورلیمان کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی 18 قراردادیں موجود ہیں اور کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا لیکن بھارت یہ سب ماننے کو تیار نہیں ہے۔

تاریخ مٹانے کی کوشش، بڑے پیمانے پر تشدد کا خدشہ: رچرڈ باؤچر

سابق امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرنیکا بھارتی اقدام بدترین اور تاریخ مٹانے کی کوشش ہے۔ بھارت کا یہ اقدام حق خود اختیاری کو ختم کرنے کی چال ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حقیقتاً مارشل لا لگا دیا ہے۔

پاکستان کاکس کی چیئر پرسن کانگریس رکن شیلا جیکسن کہتی ہیں کہ ایٹمی قوتوں کے مابین قیام امن کیلئے سلامتی کونسل جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔

دوسری جانب امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد نہ صرف کشمیریوں اور بھارت کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی بلکہ بڑے پیمانے پر تشدد کا بھی خدشہ ہے۔

یہ بات بالکل واضح محسوس ہوتی ہے کہ آرٹیکل 35 اے کا خاتمہ مسلم اکثریت والی اس ریاست کی نوعیت کو تبدیل کر دے گا۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت غیر کشمیری باشندے مقبوضہ کشمیر میں مالکانہ حقوق پر زمین نہیں خرید سکتے تھے لیکن اب ممکنہ طور پر بھارتی حکومت ہندوؤں کو کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کی حوصلہ افزائی کریگی۔

آرٹیکل 35 اے کا خاتمہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی تقریباً 5 لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں جو فوری طور پر وہاں زمینیں خرید سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ عمل بڑے پیمانے پر ہو سکتا ہے۔

مودی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ اکتوبر میں مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کریگی۔ نئے انتظامات کے تحت مودی حکومت ہندوؤں کیلئے نئی بستیاں بسا سکتی ہے جن کے اپنے شاپنگ مال، سکول اور ہسپتال ہونگے اس کے نتیجے میں کشمیر کی مزید تقسیم کی راہ ہموار ہوگی۔

مقامی جماعتیں اور کارکن بھارت کے ان عزائم کا پہلے بھی مقابلہ کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ مگر تبدیل ہوتی صورتحال میں کوئی ایک حملہ بھی فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں پر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

فارن پالیسی میگزین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں جموں اور لداخ کے غیر مسلم باشندوں نے مودی حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کیا تھا لیکن اب ان میں سے بعض نے اپنی ثقافت اور روزگار کے تحفظ سے متعلق خدشات کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے لیکن کرفیو، ذرائع ابلاغ پر پابندیاں اور گرفتاریاں ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتیں، جب پابندیاں ختم ہونگی تو دنیا یکسر مختلف کشمیر دیکھے گی۔

تنازع کشمیر حل کریں: روس، برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ

روس، برطانیہ اور کینیڈا نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تنازع کشمیر مل کر حل کریں۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب دمتری پولیانسکلی کہتے ہیں کہ روس بھارت اور پاکستان کا دوست اور اچھا شراکت دار ہے۔ ہمارا کوئی پوشیدہ مفاد نہیں، اس لیے دونوں پڑوسیوں کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے دل سے کوششیں جاری رکھیں گے۔

روس چاہتا ہے کہ کشمیر سے متعلق تنازع دو طرفہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جائے۔ بات چیت کیلئے 1972ء کا شملہ معاہدہ، 1999ء کا اعلان لاہور، اقوام متحدہ کے چارٹر، اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور پاک بھارت دوطرفہ معاہدوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔

کینیڈا کی وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ کہتی ہیں کہ ان کا ملک صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ انہوں نے اس مووقف کا اعادہ کیا کہ کینیڈا کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے۔

ہالینڈ کے وزیر خارجہ سٹیف بلوک کہتے ہیں کہ وہ کشمیر کے حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ وادی میں کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان سے کہا کہ وہ تصفیہ طلب امور طے کرنے کیلئے بات چیت کریں۔

10 لاکھ سے زائد ٹویٹس کا نیا ریکارڈ اور پُرامن مستقبل

بھارتی یوم آزادی پر پاکستان کی جانب سے یوم سیاہ کے طور پر منانے کی حمایت میں دنیا بھر میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اس موقع پر 10 لاکھ سے زائد ٹویٹس کرنے کا نیا ریکارڈ بھی قائم ہوا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کی مہم 30 گھنٹے سے زائد وقت جاری رہی جبکہ اس مہم کے دوران ٹویٹر پر دنیا بھر کے تمام مذاہب، مکاتب فکر، رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے عوام نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی حمایت کی۔

مہم کے دوران بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی حمایت میں ایک ملین سے زائد ٹویٹس کی گئیں جو کسی بھی مہم کے دوران کی جانے والی ٹویٹس میں نیا ریکارڈ ہے۔

ٹویٹر پر عالمی برادری نے کشمیر میں بھارت کے سیاہ چہرے کو پیش کیا۔ متحدہ عرب امارات میں بھارت کیلئے ایک اور ہزیمت یہ ہوئی کہ یو اے ای میں واقع دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج خلیفہ پر 15 اگست کو بھارتی جھنڈا آویزاں نہیں کیا گیا۔ جبکہ بھارتی جھنڈا لہرانے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر ثانیہ مرزا کڑی تنقید کی زد میں آگئیں۔

شعیب ملک کی اہلیہ ثانیہ مرزا نے بھارتی جھنڈا لہرانے کی تصویر کے ساتھ بھارتی یومِ آزادی کی مبارکباد دی جس پر فالورز نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان پر تنقید کے تیر برسائے اور شدید غصے کا اظہار کیا۔

زارا اکرام نامی ٹوئٹر صارف نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ثانیہ سے کہا کہ انسانیت کی خاطر تو’’ یومِ سیاہ‘‘ منا لیں۔ اس کے علاوہ اکثر ٹوئٹر صارفین نے کشمیر اور پاکستان کے جھنڈے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان۔‘‘

یونیسیف کی سفیر برائے امن اور اداکارہ پرینکا چوپڑہ بھی دنیا بھر کے صارفین کی تنقید کی زد میں ہیں۔ لاس اینجلس میں تقریب کے دوران ایک پاکستانی خاتون عائشہ ملک کے ساتھ ان کا رویہ عوام کو پسند نہیں آیا۔

جنوری میں پاکستان کے ساتھ فوجی کشیدگی کے دوران پرینکا نے ٹوئٹر پر بھارتی فوج کی حوصلہ افزائی کیلئے جے ہند کا نعرہ لگایا تھا۔ عائشہ ملک نے پرینکا کی اسی ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جس پر بظاہر پریانکا بیزار نظر آئیں لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے کہا ہمیں درمیانے راستے پر چلنا پڑتا ہے اور یہ کہ وہ ایک محبِ وطن بھی ہیں۔

انڈیا میں’’حب الوطنی یا قوم پرستی‘‘کے بخار کی پریانکا اکیلی شکار نہیں، دراصل اس وقت انڈیا میں قوم پرست ہونا ضرورت ہے اور فیشن بھی۔ پاکستانی اداکارہ مہوش حیات نے پرینکا کی’’حب الوطنی‘‘ کا انتہائی خوبصورت جواب دیا۔ مہوش نے نہ تو کسی کو ڈانٹا اور نہ ہی کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔

ناروے میں ایک تقریب کے دوران مہوش نے انتہائی پر وقار اور مؤدبانہ انداز میں فلم انڈسٹری کی ذمہ داریوں اور انڈسٹری کے لوگوں سے مثبت انداز میں کام کرنے کی اپیل کی۔

مہوش کا کہنا تھا ’’فلم انڈسٹری پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ سنیما ایک طاقتور آلہ ہے جو لوگوں کا نظریہ، ذہن اور رویہ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے، اس کا استعمال سمجھداری سے کیا جانا چاہیے۔ فلموں میں کسی بھی ملک کو منفی انداز میں پیش کرنے کے بجائے اسکے اچھے پہلوؤں اور خوبیوں کو بھی پیش کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بالی وڈ نے اپنی فلموں میں ہمیشہ پاکستان کو غلط روشنی میں دکھانے کی کوشش کی، دونوں ملکوں کی مشترکہ تاریخ، سیاست اور ذہنیت کے پس منظر میں غیر جانبدار رہنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔پرینکا اور دیگر انتہا پسندوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ قوم پرستی اہم ہے یاپُرامن مستقبل۔‘‘

دنیا پُرامن مستقبل چاہتی ہے تو اسے مظلوم کشمیریوں کو انصاف دلانا ہوگا۔ قابض، غاصب مودی حکومت کا ہاتھ روکنا ہو گا۔ ہم نے آج آپ کو دنیا بھر کی مختصراً اور چند اہم رائے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ مودی حکومت ان آوازوں کو غور سے سنے اور سمجھنے کی کوشش کرے تو یہ انتہائی صاف، سچی اور دوٹوک ہیں۔

یہ آوازیں پاکستان نہیں بھارت کیخلاف ہیں، ظلم کیخلاف ہیں اور مظلوم کیساتھ ہیں۔ قارئین آپ نے دنیا بھر کی رائے کو تو ملاحظہ کیا اب آخر میں مقبوضہ کشمیر کی آواز بھی سنیں کیونکہ یہ ناانصافی کے مترادف ہوگا کہ سب کی سنی جائے اور مقبوضہ کشمیر کی نہ سنی جائے۔

میں نے چشمِ تصور کی نذر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اپنی حالات پہ کیا کہتا ہے۔

جی ہاں میں ہوں کشمیر، جرات کی تفسیر

شہیدوں کی جاگیر

زخموں سے چُور چُور ہوں، اِک درد بھری تحریر ہوں

جسے ظلم مٹا نہیں سکتے، ہرگز بھلا نہیں سکتے

مجھے لکھا ہے شہیدوں نے اپنے خوں کی روشنائی سے

مجھے سنایا ہر مجاہد نے اپنے عزم کی گویائی سے

میرے درد ہیں قیامت کے اور ہاتھوں میں ہتھیار نہیں

اِک منزل بس آزادی ہے، ظالم سے کوئی سروکار نہیں

ہم جھکیں ہیں نہ جھک پائیں گے، سہتے سہتے مر جائیں گے

نہ گولی سے نہ لاٹھی سے، مجھے جیت لو بس آزادی سے

تاریک وقتوں میں رہنے والو، جابرو

میری چیختی خاموشی سنو

توڑ دو نفرت کی بیڑیاں، دیکھو من کی آنکھوں سے

پوچھو دل کی دھڑکن سے

کیوں جبر کا ہر سُو منظر ہے

کیوں بچوں کے ہاتھ میں پتھر ہے؟

کیوں سرخ ہوئی میری وادیاں

کیوں روئے ہیں ہم لہو لہو

کیوں پاؤں ہمارے زخمی ہیں، کیوں جاری ہے پھر بھی جستجو

خوں رستا ہے کیوں نظاروں سے

کیوں جھیلوں نے نغمے چھوڑ دئیے؟

مجھے لُوٹا دھوکے بازوں نے، کیوں رشتے ناطے توڑ دئیے

میری نوحہ کناں ہیں وادیاں

میری اُجڑ گئیں آبادیاں

اک آزادی کے نعرے پہ سب وعدے تم نے ہار دئیے

میرے بچے تم نے چھین لئے، میرے بیٹے تم نے مار دئیے

ماؤں کی عصمت لوٹ لی، میرے بوڑھوں کو لاچار کیا

باغوں سے بہاریں چھین لیں اور جنت کو پُرخار کیا

اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جھوٹ کا پول کھول دیا۔ پاکستان کی سفارتی کامیابی دنیا کے سامنے آگئی۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کی خبر جاری کر دی گئی۔

کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل میں براہ راست بات چیت ہوئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جموں وکشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔

مقبوضہ کشمیرکا خصوصی درجہ تھا جو بھارت نے 5 اگست کوختم کردیا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو عالمی تنازع تسلیم کرلیا۔ سلامتی کونسل نے کہا ہے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل ہو گا۔ کشمیر بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کے دائرہ اختیار کے اندر 1965ء کے بعد پہلی بار زیر بحث آیا۔

اقوام متحدہ کی نیوز ویب سائٹ پر بیان جاری کر دیا گیا جس میں سیکرٹری جنرل کے بیان کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے 1972ء میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے شملہ معاہدے کا بھی حوالہ بھی دیا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ارکان کا اجلاس بلانے پر شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اجلاس سے انڈیا کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج سیکورٹی کونسل میں کشمیر کی آواز گونجتی رہی۔ گزشتہ پچاس سال یہ پہلا موقع ہے کہ اکیلے جموں اور کشمیر کو سیکورٹی کونسل میں زیرِ بحث لایا گیا۔ جو بحث ہوئی اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی زندہ ہیں۔

ناگالینڈ کا اعلان آزادی اور خالصتان کا نیا نقشہ

دنیا نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر حملے کے بعد بھارت میں اقلیتوں نے کھل کر ناانصافیوں اور ظلم پربات کرنی شروع کر دی ہے۔ کئی ریاستیں الحاق کے فیصلے پر نظر ثانی کر رہی ہیں۔

ناگالینڈ کے حریت پسندوں نے تو اعلان آزادی کر دیا، اپنا الگ دارالحکومت بنا لیا، قومی پرچم اور ترانہ بھی جاری کر دیا۔ خود بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی نے بھارت کو ناگالینڈ سے محروم کر دیا جبکہ ناگالینڈ حکومت نے کہا ہے کہ ناگالینڈ اب ایک آزاد ملک ہے جس پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر رکھا تھا۔

ناگالینڈ نے کبھی بھی بھارت سے الحاق نہیں چاہا تھا۔ بھارت نے 1947ء میں زبردستی ناگالینڈ پر قبضہ کر لیا تھا۔ گزشتہ 71 برسوں کے دوران آزادی اور اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرنیوالے ناگالینڈ کے ہزاروں باسیوں کو دہشتگرد بھارتی فوجیوں کی جانب سے قتل کیا جا چکا ہے جبکہ ناگالینڈ کی خواتین کی عزتیں بھی تار تار کی گئیں۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ناگالینڈ بطور آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے اپنا نظام چلائے۔ اسی لیے ناگالینڈ کی وفاقی حکومت نے 14 اگست 2019ء کو اپنا 73 واں یوم آزادی منایا۔ اس سلسلے میں پورے ناگالینڈ میں یوم آزادی کی خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔

دوسری جانب خالصتان تحریک کے حامیوں نے بھارت کا نیا نقشہ جاری کر دیا۔ نقشے میں بھارت کو درجنوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ٹوٹا دکھایا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہت جلد بھارت ٹوٹ جائے گا اور خالصتان الگ ملک بنے گا جبکہ مکمل کشمیر اور جموں کی وادی بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔

یہ نقشہ بھارتی پنجاب میں موجود خالصتان تحریک کے حامیوں کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں لندن میں نہ صرف بھارت کے یوم آزادی کو بطور یوم سیاہ تاریخی انداز میں منایا گیا، ہزاروں افراد نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا۔

اس تاریخی مظاہرے کے چند روز بعد لندن میں ہندو دلتوں اور سکھوں نے مل کر زبردست احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور مودی حکومت کی اقلیتوں کیخلاف انتہا پسند پالیسیوں اور مظالم کو بے نقاب کیا۔

سیکولر بھارت کا نعرہ لگانے والی مودی سرکار نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر زمین تنگ کرتے ہوئے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشین سید سرور چشتی نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر خصوصی ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے اجمیر میں انتہا پسند جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں پہلو خان کے قتل کی شدید مذمت کی اور اس کیس کے تمام ملزمان کو بری کرنے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملوث افراد بے گناہ ہیں تو اس کا مطلب بھوتوں نے پہلو خان کو قتل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلو خان کے بیٹے اب بھی کیٹل سمگلنگ کیس میں گرفتار ہیں اور انہیں حراست کے دوران بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سارا ہندوستان جانتا ہے کہ پہلو خان کو ہندو انتہا پسندوں نے سرعام تشدد کے بعد قتل کیا۔ بھارتی مسلمان متحد ہو جائیں۔

بھارت کے اندر سے انصاف پسند آوازیں ہر گزرتے دن کیساتھ بلند ہو رہی ہیں۔ مظاہروں کے سلسلے زور پکڑ رہے ہیں جن میں سیکولر و جمہوری جماعتیں اور طلبا تنظیمیں مظلوم کشمیریوں کیلئے انصاف طلب کر رہی ہیں اور ظالم مودی حکومت پر تنقید کے کوڑے برسا رہی ہیں۔

ان میں سے ایک آواز کانگریس کے راجیا سبھا کے رکن اور سابق وزیر اعلیٰ وگوی جیا سنگھ کی بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ’’ مودی نے واجپائی کا انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کا ڈاکٹرائن ٹھکانے لگا دیا۔ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت سے ہی جموں وکشمیر کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے لیکن مودی نے وہ سب کچھ ٹھکانے لگا دیا‘‘۔

دوسری جانب پریس کلب آف انڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی آنکھوں دیکھی صورتحال بیان کرنیوالے سماجی رہنماؤں کی بے باک پریس کانفرنس نے مودی مظالم کو دنیا بھر کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ سماجی رہنماؤں کے مطابق ان کے گروپ نے 9 اگست سے 13 اگست تک مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا جس کے دوران وہ سری نگر، سوپور، باندی پورہ، اننت ناگ، پلواما اور پام پور گئے تصاویر اور ویڈیوز بنائیں جنہیں دکھانے سے روک دیا گیا۔

علاوہ ازیں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں بھارت کے 80 رکنی وفد نے دہلی سے واہگہ تک امن مارچ کیا جسے’’ آغاز دوستی یاترا‘‘ کا نام دیا گیا۔ مارچ 12 اگست کو شروع ہوا جبکہ اختتام 14 اگست کی رات کو ہوا۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ مارچ کا خیال صحافی کلدیپ نائیر نے پیش کیا تھا جسے اچھا ردعمل ملا۔ مزید برآں پاک، بھارت دوستی منچ نے معروف صحافی اور امن دوست شخصیت ستنام سنگھ مانک کی سربراہی میں واہگہ بارڈر پر امن کے دئیے روشن کئے۔ امرتسر میں خصوصی امن تقریبات کا اہتمام کیا اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔

معروف بھارتی صحافی کرن تھاپڑ نے آرٹیکلز 370 اور 35 اے کے خاتمے پر سوالات اٹھا دئیے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکلز 370 اور 35 اے کے خاتمے سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے اس عمل کو تسلیم کرنا کئی لوگوں کیلئے مشکل ہے، خود کو ’’یونین آف سٹیٹس‘‘ کہلوانے والے ملک کیلئے یہ محض خلاف قیاس نہیں بلکہ ممکنہ طور پر خود کو شکست دینے والا عمل ہے۔

کشمیر کو ان خصوصیات سے محروم کرنا ناقابل تشریح ہے۔ کیا یہ سیکولر بھارت کو ہندو ریاست بنانا ہے؟ ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، مہاراشٹر، گجرات، آندھرا پردیش، تلنگانہ، پورے شمال مغرب کیساتھ ساتھ وہ علاقے جنہیں شیڈولڈ علاقے نامزد کیا گیا ہے کیلئے خصوصی شقیں موجود ہیں تو پھر آرٹیکل 370 ہی کیوں اتنا پریشان کن ہے؟

یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ مودی حکومت نے معروف بھارتی ٹیلی ویژن چینل ’’این ڈی ٹی وی‘‘ کے شریک بانی پرونیلال اور اُن کی بیوی رادھیکارائیک کو غدار اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دے ڈالا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ میڈیا ہاؤس یقیناً مودی حکومت کی توقعات پر پورا نہیں اترا، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بے چینی پر کی گئی رپورٹنگ کے حوالے سے۔

مزید برآں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشمیری طلبہ نے عیدالاضحی پر وائس چانسلر کی طرف سے کھانے کی دعوت میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے دعوت کا بائیکاٹ کردیا۔ طلبہ نے بائیکاٹ کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’یہ دعوت کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے‘‘۔

انتہا پسند جنونی مودی ڈاکٹرائن کتنی آوازوں کو چُپ کروائے گی؟ کتنے سوالات کو نظر انداز کرے گی؟ جواب دینا ہو گا ظلم کا حساب دینا ہوگا کیونکہ اب جدید دور میں طاقت، دھونس اور جبر سے کچھ منوایا نہیں جا سکتا۔ انسانوں اور ان کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔

کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی :ایمنسٹی انٹرنیشنل

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی کارروائیوں کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔

ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل کومی نائیڈو نے واضح الفاظ میں کہا کہ سیاسی بحران میں جموں وکشمیر کے عوام سے مہرے جیسا سلوک نہ کیا جائے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ان کے انسانی حقوق دلوانے کیلئے اقدامات کرے۔

کشمیر میں بھارتی حکومت کی کارروائیوں کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سالہا سال سے انہیں اذیت اور تکلیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کشمیری عوام کی گرفتاریاں اور حقوق کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔ بھارت انسانی حقوق کے قانون کا احترام کرے۔ عالمی امن و سلامتی کا تحفظ کرنا سلامتی کونسل کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہیے کہ شورش زدہ علاقے میں شہریوں کے انسانی حقوق کو اولین ترجیح دیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ وادی میں جاری لاک ڈاؤن ختم کیا جائے۔ مودی سمجھتے ہیں کشمیر سے متعلق فیصلے کو عوام کی حمایت حاصل ہے تو وہ لاک ڈاؤن ختم کرکے دیکھ لیں۔ مقبوضہ کشمیر بند پڑا ہے اور بھارت آزادی منا رہا ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے سربراہ اکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ نریندر مودی کو خطے کے لوگوں کو سننا چاہیے، ان سے مذاکرات کرنے چاہیں۔ اس وقت جموں وکشمیر کے عوام کو اپنے پیاروں سے رابطے اور اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں، پوری مقبوضہ وادی میں مواصلات کا نظام بند کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

(یہ تحریر دنیا میگزین میں شائع ہوئی)
 

Advertisement