دوحہ: (ویب ڈیسک) 19 سال سے جاری امریکا اور افغانستان کی جنگ کے خاتمے کے لیے دونوں فریقین میں مذاکرات جاری ہیں جبکہ افغان طالبان عارضی فائربندی پر تیار ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے پی‘ نے افغان امن مذاکراتی عمل سے باخبر شخصیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان نے عارضی فائربندی سے متعلق دستاویز امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کے حوالے کر دی ہے۔ یہ عارضی فائربندی سات سے دس روز تک کی ہو گی۔
افغان طالبان کی اس پیشکش کو کسی ممکنہ افغان امن معاہدے اور 19 سالہ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے نیا موقع تصور کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی سے متعلق دستاویز بدھ کی شام قطر میں امریکی مذاکرات کار کے حوالے کی گئی۔
دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لانے پر تیار ہو گئے ہیں۔
دورہ امریکا پر گئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کانگریس اراکین سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کی دوستی سات دہائیوں پر مشتمل ہے، اس میں اتار چڑھاؤ بھی آیا لیکن ہم ہمیشہ اہم اتحادی رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی مسلسل کوششوں سے طالبان اب مذاکرت کی میز پر ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد ایک مرتبہ پھر ایسی چہ مگوئیوں میں اضافہ ہو گیا ہے کہ طالبان امریکا مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے والی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا مختصر ویڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ آج مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ طالبان نے تشدد میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور یہی مطالبہ بھی تھا۔ یہ امن معاہدے کی جانب ایک قدم ہے۔تاہم انہوں نے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مشرق وسطی کشیدگی، امریکا کیساتھ مذاکرات متاثر ہونے کا امکان نہیں: افغان طالبان
ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس تبصرے پر غور کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں افغان طالبان اور امریکا ایک امن معاہدے کے بہت ہی قریب پہنچ چکے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ امریکی صدر نے یہ اعلان طالبان کی جانب سے کیے جانے والے پے در پے بڑے حملوں کے بعد کیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایرانی لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں ایران امریکا کشیدگی بڑھنے کے بعد افغان طالبان کا کہنا تھا کہ تہران واشنگٹن کشیدگی کے باعث دونوں فریقین میں مذاکرات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔
یاد رہے کہ امریکا نے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب فضائی حملے میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل قاسم سلیمانی سمیت دیگر افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جسکے بعد ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیراثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔ تہران نے حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے باضابطہ بیان دیا، امریکا افغان طالبان کے درمیان مذاکراتی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے سے بات چیت کے بعد دونوں فریقین 18 سالہ تنازع کے بعد امن معاہدے پر دستخط کے قریب پہنچے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکاایران کشیدگی سے واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن عمل کو خطرہ ہونے کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ان پیشرفت کا امن عمل پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ فریقین میں امن معاہدہ حتمی ہے اور صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔
مذاکرات میں پیشرفت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف اس لیے ممکن ہوئی کیونکہ امریکا اور طالبان دونوں اس بات پر راضی ہیں کہ افغان تنازع صرف امن مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کے خاتمے کے لیے کافی عرصے سے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں مصروف ہے۔